کتاب: حقیقت شہادتین - صفحہ 234
رہے گی۔ فرمانِ الٰہی ہے:
﴿اِلَّا تَنْصُرُوْہُ فَقَدْ نَصَرَہُ اللّٰہُ اِذْ اَخْرَجَہُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا ثَانِیَ اثْنَیْنِ اِذْ ہُمَا فِی الْغَارِ اِذْ یَقُوْلُ لِصَاحِبِہٖ لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا فَاَنْزَلَ اللّٰہُ سَکِیْنَتَہُ عَلَیْہِ وَاَیَّدَہُ بِجُنُوْدٍ لَّمْ تَرَوْہَا وَجَعَلَ کَلِمَۃَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا السُّفْلٰی وَکَلِمَۃُ اللّٰہِ ھِیَ الْعُلْیَا وَاللّٰہُ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ﴾[التوبۃ:۴۰]
ترجمہ:’’اگر تم ان کی مدد نہ کرو تو اﷲ ہی نے ان کی اس وقت مدد کی جبکہ انہیں کافروں نے(وطن سے)نکال دیا تھا،دو میں سے دوسرا،جب کہ وہ دونوں غار میں تھے۔جب یہ اپنے ساتھی سے کہہ رہے تھے:غم نہ کر اﷲ ہمارے ساتھ ہے۔پس جناب باری نے اپنی طرف سے ان پر تسکین نازل فرمائی اور اس کی ان لشکروں سے مدد کی جنہیں تم نے دیکھا ہی نہیں۔اس نے کافروں کا کلمہ پست کردیا اور بلند وعزیز تو اﷲ کا کلمہ ہی ہے۔اﷲ غالب ہے حکمت والا ہے۔’‘
5. حضرت ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تشریف فرما ہوئے اور پھر ارشاد فرمایا:(إِنَّ عَبْدًا خَیَّرَہُ اللّٰہُ بَیْنَ أَنْ یُّؤْتِیَہُ مِنْ زَہْرَۃِ الدُّنْیَا مَا شَائَ وَبَیْنَ مَا عِنْدَہُ،فَاخْتَارَ مَا عِنْدَہُ)
‘’بے شک اللہ تعالیٰ نے ایک بندے کو اختیار دے دیا ہے کہ وہ اسے اس کی منشاء کے مطابق دنیا کی رونق دے دے یا اسے وہ نعمتیں دے دے جو اس کے پاس ہیں۔تو اس بندے نے ان نعمتوں کو اختیار کر لیا ہے جو اللہ کے پاس ہیں۔‘‘
یہ سن کر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ رونے لگے اور انھوں نے کہا:ہمارے ماں باپ آپ پر قربان ہوں۔ہمیں ان کی یہ بات سن کربڑی حیرت ہوئی اور لوگ کہنے لگے:اس بوڑھے آدمی کو دیکھو،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو محض اتنی خبر دی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک