کتاب: حقیقت شہادتین - صفحہ 224
مِنْ قَبْلِکَ یُرِیْدُوْنَ اَن یَّتَحَاکَمُوْا اِلَی الطَّاغُوْتِ وَقَدْ اُمِرُوْا اَن یَّکْفُرُوْا بِہٖ وَیُرِیْدُ الشَّیْطَانُ اَن یُّضِلَّہُمْ ضَلَالًا بَعِیْدًا ٭ وَإِذَا قِیْلَ لَہُمْ تَعَالَوْا إِلٰی مَا أَنْزَلَ اللّٰہُ وَإِلَی الرَّسُوْلِ رَأَیْتَ الْمُنَافِقِیْنَ یَصُدُّوْنَ عَنْکَ صُدُوْدًا﴾[النساء:۶۰۔ ۶۱] ’’کیا آپ نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ آپ پر اتاری گئی اور آپ سے پہلے اتاری گئی کتابوں پر ایمان لے آئے ہیں،مگرچاہتے یہ ہیں کہ طاغوت(غیر اﷲ)سے فیصلہ کرائیں حالانکہ انھیں حکم دیا گیا تھا کہ وہ طاغوت کے فیصلے تسلیم نہ کریں۔اور شیطان انھیں راہِ راست سے بہت دور لے جانا چاہتا ہے۔ اور جب انھیں کہا جاتا ہے کہ اس چیز کی طرف آ جاؤ جو اللہ نے نازل کی ہے اور رسول کی طرف آ جاؤ تو آپ منافقوں کو دیکھیں گے کہ وہ آپ کے پاس آنے سے گریز کرتے ہیں۔‘‘ لہذا ہر چھوٹے بڑے معاملہ میں شریعت الٰہی اور سنتِ نبویہ کی روشنی میں فیصلہ کرنا ضروری ہے۔افراد اپنے اوپر اور حکام اور ان کے علاوہ تمام ذمہ دارن اپنی رعایا اور ما تحت لوگوں پر دین ِ الٰہی کو سامنے رکھتے ہوئے ہی فیصلہ کرنے کے پابند ہیں اور اس سے کسی مسلمان کو چھٹکارا نہیں۔بلکہ یہ شہادتین(لاَ إِلٰہَ إِلاَّ اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ)کے لازمی تقاضوں میں سے ایک تقاضا ہے۔ اسی طرح محمد رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم کی گواہی میں یہ بھی شامل ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہترین نمونہ تصور کرتے ہوئے آپ کی سنت کی اتباع کی جائے اور آپ کی احادیث مبارکہ کو تمام شخصی آراء پر ترجیح دی جائے اور ان کی مخالفت سے اجتناب کیا جائے۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ أُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَنْ کَانَ یَرْجُوْ اللّٰہَ