کتاب: حقیقت شہادتین - صفحہ 21
‘’مجھے لعنت بھیجنے والا نہیں،بلکہ مجھے تو رحمت بنا کر بھیجا گیا ہے ....’‘
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب مبعوث کیا گیا تو اس وقت حالت کیا تھی،اس کا ذکر خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک خطبہ میں کیا۔جیسا کہ حضرت عیاض بن حمار المجاشعی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک خطبہ میں ارشاد فرمایا:
(أَلاَ إِنَّ رَبِّیْ أَمَرَنِیْ أَنْ أُعَلِّمَکُمْ مَّا جَہِلْتُمْ مِمَّا عَلَّمَنِیْ یَوْمِیْ ہٰذَا،کُلُّ مَالٍ نَحَلْتُہُ عَبْدًا حَلاَلٌ،وَإِنِّیْ خَلَقْتُ عِبَادِیْ حُنَفَائَ کُلَّہُمْ،وَإِنَّہُمْ أَتَتْہُمُ الشَّیَاطِیْنُ فَاجْتَالَتْہُمْ عَنْ دِیْنِہِمْ،وَحَرَّمَتْ عَلَیْہِمْ مَّا أَحْلَلْتُ لَہُمْ،وَأَمَرَتْہُمْ أَنْ یُشْرِکُوْا بِیْ مَا لَمْ أُنْزِلْ بِہٖ سُلْطَانًا،وَإِنَّ اللّٰہَ نَظَرَ إِلٰی أَہْلِ الْأرْضِ،فَمَقَتَہُمْ،عَرَبَہُمْ وَعَجَمَہُمْ،إِلاَّ بَقَایَا مِنْ أَہْلِ الْکِتَابِ،وَقَالَ:إِنَّمَا بَعَثْتُکَ لِأَبْتَلِیَکَ وَأَبْتَلِیَ بِکَ،وَأَنْزَلْتُ عَلَیْکَ کِتَابًا لاَ یَغْسِلُہُ الْمَائُ،تَقْرَؤُہُ نَائِمًا وَیَقْظَانَ۔۔۔)[مسلم:۲۸۶۵]
‘’خبردار ! مجھے میرے رب نے حکم دیا ہے کہ میں تمہیں وہ چیز سکھلاؤں جو اس نے مجھے آج سکھلائی ہے اور تم اس سے ناواقف ہو۔(اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:)ہر وہ مال جو میں نے اپنے بندے کو عطا کیا وہ حلال ہے۔او رمیں نے اپنے تمام بندوں کو اس حالت میں پیدا کیا کہ وہ سب کے سب مسلمان(اور شرک سے اعراض کرنے والے)تھے،پھر ان کے پاس شیاطین آئے اور انھیں ان کے دین سے دور لے گئے اور انھوں نے ان پر وہ چیز حرام کردی جو میں نے ان کیلئے حلال کی تھی۔اور انھوں نے انھیں حکم دیا کہ وہ میرے ساتھ اس چیز کو شریک بنائیں جس کی میں نے کوئی دلیل نازل نہیں کی۔ اللہ تعالیٰ نے(نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے قبل)تمام اہلِ زمیں(عرب وعجم)کی طرف دیکھا تو انھیں سخت نا پسند کیا سوائے چند اہلِ کتاب کے(جو اپنے دین پر