کتاب: حقیقت شہادتین - صفحہ 191
(إِنَّ مِنْ أَمَنِّ النَّاسِ عَلَیَّ فِیْ صُحْبَتِہٖ وَمَالِہٖ أَبَا بَکْرٍ،وَلَوْ کُنْتُ مُتَّخِذًا خَلِیْلاً مِنْ أُمَّتِیْ لَاتَّخَذْتُ أَبَا بَکْرٍ إِلاَّ خُلَّۃَ الْإِسْلاَمِ،لاَ یَبْقَیَنَّ فِیْ الْمَسْجِدِ خَوْخَۃٌ إِلاَّ خَوْخَۃُ أَبِیْ بَکْرٍ)
ترجمہ:’’اپنی رفاقت اور اپنے مال میں لوگوں میں سے سب سے زیادہ ابو بکر(رضی اللہ عنہ)نے مجھ پر احسان کیا۔اور اگر مجھے اپنی امت کے کسی شخص کو خلیل(دوست)بنانا ہوتا تو میں ابو بکر(رضی اللہ عنہ)کو خلیل(دوست)بناتا لیکن اب ہم میں اسلام کی دوستی ہے۔اور مسجد نبوی میں کسی شخص کی کھڑکی(کھلی)نہ رہے سوائے ابو بکر(رضی اللہ عنہ)کی کھڑکی کے۔‘‘[بخاری:۳۹۰۴،مسلم:۲۳۸۱]
اور صحیح بخاری میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی ایک روایت میں ہے کہ نبی کریم اپنی مرض الموت میں اس حالت میں گھر سے باہر تشریف لائے کہ آپ نے اپنے سر کو ایک کپڑے سے باندھ رکھا تھا ...[بخاری:۴۶۷]
جبکہ صحیح مسلم میں حضرت جندب رضی اللہ عنہ کی ایک روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ خطبہ اپنے انتقال سے پانچ دن قبل دیا تھا۔۔[مسلم:۵۳۲]
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے انتقال کا وقت آیا توآپ کو بھی سکرات الموت کا احساس ہوا۔پھر آپ کی روح مبارک آپ کے جسد اطہر سے پرواز کر گئی جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ مجھ پر اللہ تعالیٰ کے احسانات میں سے ایک احسان یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر میں،میرے دن میں اور اس حالت میں فوت ہوئے کہ آپ کا سر مبارک میرے سینے پر تھا۔اور اللہ تعالیٰ نے آپ کی موت کے وقت میرے اور آپ کے لعاب کو جمع فرمایا۔وہ اس طرح کہ میرے پاس(میرے بھائی)عبد الرحمن آئے اور ان کے ہاتھ میں مسواک تھا۔اُس وقت میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو