کتاب: حقیقت شہادتین - صفحہ 177
کے ساتھ ہی فیصلہ کرے۔یہ اس پر شرعا واجب ہے،لہذا اگر وہ واجب کام کو جائز تصور کرے اور یہ کہے کہ یہ بھی جائز ہے اور یہ بھی جائز ہے تو گویا وہ واجب کا انکارکر رہا ہے اور واجب کا انکار کرنا کفر ہے۔
اور اگر کوئی شخص کسی کیس میں وضعی قوانین کے ساتھ فیصلہ توکرے لیکن اس کا اعتقاد یہ ہو کہ شرعی قوانین کے ساتھ ہی فیصلہ کرنا واجب ہے اور وضعی قوانین کے ساتھ فیصلہ کرنا جائز نہیں،نیز وہ یہ سمجھتا ہو کہ وضعی قوانین کے ساتھ فیصلہ کرکے وہ گناہگار ہے اور اللہ تعالی کی سزا کا مستحق ہے،تاہم اس پر نفسانی خواہشات غالب آجائیں یا شیطان اسے بہکا دے یا وہ کسی کی دوستی یا دشمنی کے پیش نظر یا رشتہ داری یا کسی اور مفاد کی خاطر فیصلہ وضعی قوانین کی روشنی میں کردے تو اس کا کفر کفر ِ اصغر ہو گا جو ملت ِ اسلامیہ سے خارج نہیں کرتا۔
اور اگر کوئی شخص شرعی قوانین کو مکمل طور پر ختم کرکے ان کی جگہ وضعی قوانین کو نافذکردے تو اس کے بارے میں بعض اہل ِ علم کا کہنا ہے کہ یہ بھی کافر ہے کیونکہ اس نے اللہ کا دین تبدیل کر ڈالا ہے۔یہی فتوی سعودی عرب کے سابق مفتیٔ اعظم سماحۃ الشیخ محمد بن ابراہیم رحمہ اللہ کا بھی ہے۔جبکہ سماحۃ الشیخ عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ کا موقف یہ ہے کہ یہ شخص اس وقت تک کافر نہیں ہو گا جب تک وہ یہ اعتقادنہ رکھے کہ وضعی قوانین کے ساتھ فیصلہ کرنا بھی جائز ہے۔
اور اگر کوئی شخص بساط بھر یہ کوشش کرے کہ فیصلہ شریعت کے مطابق ہی ہو لیکن اسے غلطی لگ جائے اور اس کا فیصلہ شریعت کے مطابق نہ ہو تو یہ نہ کا فرہو گا اور نہ گناہگار ہو گا بلکہ یہ ایک اجر کا مستحق ہو گا۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ
‘’جب حاکم اجتہاد کرے اور درست فیصلہ کردے تو اس کیلئے دوگنا اجر ہے۔اور