کتاب: حقیقت شہادتین - صفحہ 176
جبکہ ان سب نے اپنی قوم سے برملا کہہ دیا کہ ہم تم سے اور جن جن کی تم اللہ کے سوا عبادت کرتے ہو ان سب سے بالکل بیزار ہیں۔ہم تمہارے(عقائد کے)منکر ہیں اور جب تک تم اللہ کی وحدانیت پر ایمان نہیں لاتے ہم میں اور تم میں ہمیشہ کیلئے بغض وعداوت ظاہر ہو گئی۔’‘ یہی ہے وہ حنیفیت(ملتِ ابراہیمی)جس کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ دین کو اللہ کیلئے خالص کرتے ہوئے بس اسی کی عبادت کی جائے اور اس کے سوا ہر چیز کی عبادت سے انکار کیا جائے،غیر اللہ کی عبادت سے مکمل لا تعلقی ظاہر کی جائے اور غیر اللہ کی عبادت کرنے والے لوگوں سے بغض وعداوت رکھی جائے۔ چوتھا ناقض یہ ہے کہ کوئی شخص یہ اعتقاد رکھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے سے بہتر بھی کوئی طریقہ ہے جیسا کہ کوئی شخص یہ کہے کہ فلاسفہ یا صابئہ یا صوفیاء کا طریقہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے سے بہتر ہے،تو وہ یقینا کافر ہو جاتا ہے کیونکہ کوئی طریقہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے سے بہتر نہیں۔اس لئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی خواہش سے نہیں بلکہ ہمیشہ وحی سے بات کرتے تھے اور آپ کا ہر کام وحیِ الٰہی کے عین مطابق ہو تا تھا۔ اسی طرح اگر کوئی شخص یہ اعتقاد رکھے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلوں سے بہتر بھی کوئی فیصلہ ہے جیسا کہ کوئی شخص وضعی قوانین کو شرعی قوانین سے بہتر قرار دے یا ان جیسا تصور کرے تو وہ بھی بالاجماع کافر ہے۔ یا وہ یہ کہے کہ شرعی قوانین کے ساتھ فیصلہ کرنا وضعی قوانین کے ساتھ فیصلہ کرنے سے بہتر تو ہے لیکن وضعی قوانین کے ساتھ فیصلہ کرنا بھی جائز ہے۔ یا وہ یہ عقیدہ رکھے کہ دونوں طرح جائز ہے،چاہیں تو شرعی قوانین کی روشنی میں فیصلہ کر لیں اور چاہیں تو وضعی قوانین کی روشنی میں کر لیں تو یہ شخص بھی بالاجماع کافر ہے کیونکہ انسان مخیّر نہیں بلکہ اس بات کا پابند ہے کہ وہ محض شرعی قوانین