کتاب: حقیقت شہادتین - صفحہ 175
کیلئے آزادی ہے کہ وہ یہودیت،نصرانیت اور اسلام میں سے جو نسا دین چاہے اختیار کر لے کیونکہ سب کے سب آسمانی دین ہیں،جیسا کہ بعض لوگ ان تینوں ادیان کو ایک دوسرے کے قریب کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔تو جو آدمی اس طرح کا اعتقاد رکھے وہ کافر ہے۔لہذا اس کیلئے ضروری ہے کہ وہ یہود ونصاری،مجوس،بت پرستوں اور ان کے علاوہ دیگر تمام کفار کے بارے میں پختہ اعتقاد رکھے کہ وہ یقینا کافر ہیں اور دین ِ باطل پر قائم ہیں۔اور ان سے اور ان کے دین سے براء ت کا اظہار کرے اور اللہ کی رضا کی خاطر ان سے بغض اور عداوت رکھے۔ اور جو شخص ان کے دین کو برحق تصور کرے وہ بھی انہی کی طرح کافر ہو جاتا ہے کیونکہ جو آدمی مشرکوں کو کافر نہ کہے اس نے گویا طاغوت سے انکار نہیں کیا۔جبکہ توحید دو چیزوں کا نام ہے:ایمان باللہ اور کفر بالطاغوت۔تو اُس شخص کا عقیدۂ توحید مکمل نہیں جو مشرکوں اور یہود ونصاری کو کافر نہ کہے۔یہی بات کلمۂ توحید(لا إلہ إلا اللّٰه)میں بھی ہے کیونکہ(لا إلہ)کفر بالطاغوت ہے جس کا معنی یہ ہے کہ کلمہ گو مسلمان غیر اللہ کی عبادت سے براء ت اور لا تعلقی کا اظہار کر رہا ہے۔ اور(إلا اللّٰہ)ایمان باللہ ہے اور اس کا معنی یہ ہے کہ وہ ہر قسم کی عبادت صرف اللہ تعالی کیلئے خاص کر رہا ہے۔ لہذا مشرکوں سے بغض اور عدوات رکھنا اور ان سے اظہارِ براء ت کرنا ضروری ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے:﴿قَدْ کَانَتْ لَکُمْ أُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ فِیْ إِبْرَاہِیْمَ وَالَّذِیْنَ مَعَہُ إِذْ قَالُوْا لِقَوْمِہِمْ إِنَّا بُرَآؤُ مِنْکُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ کَفَرْنَا بِکُمْ وَبَدَا بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمُ الْعَدَاوَۃُ وَالْبَغْضَائُ أَبَدًا حَتّٰی تُؤْمِنُوْا بِاللّٰہِ وَحْدَہُ﴾[الممتحنۃ:۴] ترجمہ:’’تمہارے لئے ابراہیم(علیہ السلام)اور ان کے ساتھیوں میں بہترین نمونہ ہے