کتاب: حقیقت شہادتین - صفحہ 170
طریقہ یہ ہے:’’جیسے اﷲ نے چاہا،پھر فلاں شخص نے۔‘‘ ایک صحیح حدیث میں مذکور ہے کہ ایک شخص نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا:’’جیسے اﷲ چاہے اور آپ چاہیں’‘ توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’کیا تم نے مجھے اﷲ تعالیٰ کا شریک بنادیا ہے؟ تم یوں کہو:’’جو صرف اﷲ تعالی چاہتا ہے وہی ہوتا ہے۔‘‘[النسائی] اسی طرح یہ کہنا:’’اگر اﷲ اور فلاں نہ ہوتا’‘ جب کہ کہنے کا صحیح طریقہ یہ ہے:’’اگر اللہ تعالی کا فضل،پھر فلاں کی مہربانی نہ ہوتی تو ....’‘ اس لئے کہ لفظِ(ثم)یعنی’’پھر’‘ ترتیب میں بعد کا معنی دیتا ہے جس سے یہ مفہوم خود بخود پیدا ہوجاتا ہے کہ بندے کی مشیئت(چاہت)اﷲ کی مشیئت کے تابع ہے۔جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿وَمَا تَشَآ ئُ وْنَ اِلَّا اَن یَّشَآئَ اللّٰہُ رَبُّ الْعَالَمِیْنَ﴾[التکویر:29] ’’اور تم کچھ چاہ نہیں سکتے جب تک کہ اﷲ نہ چاہے جو سارے جہان کا رب ہے۔‘‘ اسی طرح یہ کہنا بھی ناجائز ہے:’’مَا لِیْ إِلاَّ اللّٰہُ وَأَنْتَ’‘(میرے لئے تو بس اﷲ اور تم ہو)اور’’ھٰذَا مِنْ بَرَکَاتِ اللّٰہِ وَبَرَکَاتِکَ‘‘یعنی(یہ اﷲ اور تمہاری برکت کے طفیل ہے)اس لئے کہ ان جملوں میں جو حرفِ(و)آیا ہے یہ صرف جمع اور اشتراک کے لئے آتا ہے،اس میں ترتیب اور تعقیب کا مفہوم پیدا نہیں ہوتا۔ اور جہاں تک شرکیہ افعال کا تعلق ہے تو وہ یہ ہیں:مصیبت کو ٹالنے اور دفعِ بلاء کے لئے کڑے پہننا،نظر بد سے بچنے کے لئے تعویذ وغیرہ باندھنا۔اور ان اعمال کے ساتھ یہ عقیدہ رکھنا کہ یہ وہ اسباب ہیں جن سے مصیبتیں دور ہوتی ہیں اور بلائیں ٹلتی ہیں تو یہ شرکِ اصغر ہوگا۔اوراگر یہ عقیدہ رکھا جائے کہ یہ چیزیں بذاتِ خود بلاء کو دور کرتی ہیں تو یہ شرکِ اکبر ہوگا۔اس لئے کہ اس نے غیر اﷲ کے ساتھ وہ ربط پیدا کیا جو صرف اﷲ