کتاب: حقیقت شہادتین - صفحہ 17
ترجمہ:’’اور اللہ تعالیٰ سے زیادہ عذر کو پسند کرنے والا کوئی نہیں،اسی لئے اس نے کتاب نازل فرمائی اور رسولوں کو مبعوث کیا۔’‘ اور حضرت سعد بن عبادۃ رضی اللہ عنہ کی روایت میں اس حدیث کے الفاظ یوں ہیں: (وَلاَ شَخْصٌ أَحَبَّ إِلَیْہِ الْعُذْرُ مِنَ اللّٰہِ،مِنْ أَجْلِ ذٰلِکَ بَعَثَ اللّٰہُ الْمُرْسَلِیْنَ مُبَشِّرِیْنَ وَمُنْذِرِیْنَ)[بخاری:۷۴۱۶،مسلم:۱۴۹۹] ‘’ اور اللہ تعالیٰ سے زیادہ عذر کو پسند کرنے والا کوئی شخص نہیں،اسی لئے اس نے رسولوں کو مبعوث کیا جو جنت کی خوشخبری دینے والے اور جہنم سے ڈرانے والے تھے۔’‘ مذکورہ آیات اور احادیث سے ثابت ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر حجت قائم کرنے اور ان کیلئے کوئی عذر باقی نہ چھوڑنے کی غرض سے اپنے رسولوں کو مبعوث فرمایا۔ اور رسالت تمام بنی نوع انسان پر اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں سے ایک عظیم نعمت ہے کیونکہ بندے اپنی تمام حاجات کی نسبت رسالت کے زیادہ محتاج اور اپنی تمام ضرورتوں کے مقابلے میں رسالت ونبوت کے زیادہ ضرورتمند ہیں،حتی کہ کھانے پینے اور علاج سے بھی رسالت ان کیلئے زیادہ ضروری ہے۔کیونکہ اشیاء ِ خورد ونوش اور علاج کی کمی یا عدم موجودگی سے زیادہ سے زیادہ یہی نقصان ہوتا ہے کہ بدن کمزور پڑ جاتے ہیں یا ختم ہو جاتے ہیں،لیکن رسالت ایسی ضروری چیز ہے کہ اس سے بندے کی دنیوی واخروی اصلاح ہوتی ہے۔اور جس طرح بندے کی آخرت اتباعِ رسالت کے بغیر نہیں سنور سکتی اسی طرح اس کی دنیا بھی اس کے بغیر درست نہیں ہو سکتی،گویا کہ رسالت میں دلوں کی زندگی اور دین کی تابندگی ہے۔[دیکھئے:مجموع فتاوی شیخ الإسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ:۱۹ / ۹۹] اللہ تعالیٰ نے رسولوں کو انسانوں میں سے اورانہی لوگوں میں سے منتخب فرمایاجن کی