کتاب: حقیقت شہادتین - صفحہ 155
ان ظالموں سے براسلوک کرے کہ انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت سے منہ موڑنے پر اور نہیں جھٹلانے پر ہی اکتفا نہ کیا بلکہ ظالمانہ طور پر انھیں دیوانہ شاعر بھی قرار دے دیاحالانکہ انھیں یہ معلوم تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم شعر اور شعراء کے بارے میں تو کچھ بھی نہیں جانتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پوری مخلوق میں سب سے زیادہ عقلمند اور سب سے زیادہ درست بات کرنے والے انسان ہیں۔‘‘[تفسیر ابن السعدی:۴/ ۲۵۶] مشرکین کا یہ طرزِ عمل اللہ کے دین سے روکنے کا سب سے برا راستہ تھا جو انھوں نے اختیار کیا۔اسی لئے اللہ تعالیٰ نے بعد والی آیت میں ان کا منہ توڑ جواب دیا اور انھیں جھٹلاتے ہوئے فرمایا:﴿بَلْ جَائَ بِالْحَقِّ وَ صَدَّقَ الْمُرْسَلِیْنَ﴾ یعنی’’ہمارا نبی حق لیکر آیا ہے اور اس نے رسولوں کی تصدیق کی ہے۔’‘ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ’’اللہ تعالیٰ نے ان کی تردید کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پوری شریعتِ الٰہیہ میں حق لے کر آئے ہیں اور پہلے رسولوں کی تصدیق کرتے ہیں کہ انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جن صفاتِ حمیدہ اور درست منہج کے بارے میں خبر دی تھی وہ بالکل سچی خبر تھی۔اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اللہ تعالیٰ کے بارے میں اور اس کی شریعت اور اس کے احکامات کے بارے میں بالکل وہی خبر دی ہے جو کہ پہلے انبیاء ورسل علیہم السلام نے دی تھی۔فرمان الٰہی ہے:﴿مَا یُقَالُ لَکَ إِلاَّ مَا قَدْ قِیْلَ لِلرُّسُلِ مِنْ قَبْلِکَ﴾[فصلت:۴۳]’’اور آپ کو وہی کچھ کہا جاتا ہے جو آپ سے پہلے رسولوں کو کہا گیا۔‘‘[تفسیر ابن کثیر:۴/۷] اور حضرت ابو موسی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ترجمہ:’’اللہ تعالیٰ نے مجھے جو ہدایت اور علم دے کر بھیجا ہے اس کی مثال یوں ہیں جیسے موسلا دھار بارش ہو جو زمین پر برستی ہے تو اس کا ایک ٹکڑا ایسا ہوتا ہے جو بارش کے پانی کو