کتاب: حقیقت شہادتین - صفحہ 154
کوترجیح دیتے ہوئے کلمۂ طیبہ کی گواہی دینے سے انکار کردیا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿إِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَذِکْرٰی لِمَنْ کَانَ لَہُ قَلْبٌ أَوْ أَلْقَی السَّمْعَ وَہُوَ شَہِیْدٌ﴾[ق:۳۷] ترجمہ:’’بے شک اس میں اس شخص کیلئے عبرت ونصیحت ہے جس کے پاس دل ہے یا جو کان لگا کر سنتا ہے اور اس کا دل حاضر رہتا ہے۔’‘ لہذا اے میرے مسلمان بھائی ! اس اندھی تقلید اور احمقانہ تعصب سے اپنا دامن بچا کر رکھو۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:﴿إِنَّھُمْ کَانُوْا إِذَا قِیْلَ لَھُمْ لاَ إِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ یَسْتَکْبِرُوْنَ ٭ وَیَقُوْلُوْنَ أَ إِنَّنَا لَتَارِکُوْا آلِھَتِنَا لِشَاعِرٍ مَّجْنُوْنٍ ٭ بَلْ جَائَ بِالْحَقِّ وَ صَدَّقَ الْمُرْسَلِیْنَ﴾[الصافّات:۳۵۔ ۳۷] ترجمہ:’’بلاشبہ جب ان سے کہا جاتا تھا کہ اﷲ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں تو وہ تکبر کیا کرتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ کیا ہم اس شاعر اور دیوانے کی خاطر اپنے معبودوں کو چھوڑ دیں ؟حالانکہ(ہمارا نبی)حق لیکر آیا تھا اور اس نے رسولوں کی تصدیق کی تھی۔‘‘ الشیخ ابن السعدی رحمہ اللہ کہتے ہیں: ‘’جب مشرکین کو دعوت دی جاتی کہ تم کلمہ طیبہ کا اقرار کرو اور اللہ تعالیٰ کے سوا باقی سب معبودان باطلہ کی الوہیت کا انکار کردو تو وہ کلمہ توحید پر اور اس کے لانے والے نبی پر اپنی بڑائی کا اظہار کرتے اور اس کی مخالفت کرتے ہوئے کہتے کہ کیا ہم ایک دیوانے شاعر کی خاطر اپنے ان معبودوں کو چھوڑ دیں جن کی ہمارے آباء و اجداد اور ہم پوجا کرتے رہے اور ابھی تک کر رہے ہیں ؟ دیوانے شاعر سے ان کی مراد حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہوتے ! اللہ تعالیٰ