کتاب: حقیقت شہادتین - صفحہ 148
‘’اللہ تعالیٰ نے ہر متنازعہ مسئلے کو خواہ اس کا تعلق اصولِ دین سے ہو یا فروعِ دین سے‘ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لوٹانے کا حکم دیا ہے یعنی کتاب اللہ اور سنت ِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف۔کیونکہ انہی دو چیزوں میں تمام اختلافی مسائل کے بارے میں فیصلے موجود ہیں خواہ صراحتًا یا اشارۃ ً،یا اپنے عموم کے اعتبار سے یا مفہوم کے اعتبار سے،یا ایسے معنی کے لحاظ سے کہ جس پر اس سے ملتے جلتے مسائل کو قیاس کیا جا سکتا ہے۔اور کتاب اللہ اور سنت ِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں کہ جن پر دین کی بنیاد ہے۔اور کسی شخص کا ایمان اس وقت تک درست نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ ان دونوں کے فیصلے کو تسلیم نہ کرے۔اسی لئے اللہ تعالیٰ نے اسے ایمان کی شرط قرار دیتے ہوئے فرمایا:﴿اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ﴾یہ اس بات کی دلیل ہے کہ جو شخص نزاعی مسائل کو کتاب اللہ اور سنت ِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نہ لوٹائے وہ حقیقی مومن نہیں بلکہ وہ در حقیقت طاغوت پر ایمان رکھنے والا ہے جیسا کہ اس کے بعد والی آیت سے ثابت ہوتا ہے۔کتاب اللہ اور سنت نبویہ سے فیصلہ کروانا ہی بہتر اور انجام کے اعتبار سے اچھا ہے کیونکہ اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے ہی سب سے اچھے،سب سے زیادہ منصفانہ اور لوگوں کے دینی معاملات،دنیاوی امور اور ان کے انجام کیلئے سب سے زیادہ مناسب ہیں۔‘‘[تفسیر ابن السعدی:۱/۳۶۲] ان تمام آیاتِ کریمہ سے ثابت ہوتا ہے کہ اکیلئے اللہ تعالیٰ کیلئے تمام عبادات کو خالص کرنا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرنا واجب ہے۔اور انہی دو چیزوں کے ساتھ ہی ایک مضبوط سہارا مل سکتا ہے۔نیز یہ بھی کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات اور ان کی شریعت کے سامنے ظاہری وباطنی طور پر سرِ تسلیمِ خم کرنا لازم ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: