کتاب: حقیقت شہادتین - صفحہ 147
ذریعے وہ کھجوروں کو پانی پلایا کرتے تھے۔چنانچہ انصاری نے کہا:پانی چھوڑ دو اور اسے آگے جانے دو لیکن حضرت زبیر رضی اللہ عنہ نے انکار کردیا۔اب وہ دونوں اپنا معاملہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے کر آئے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(اِسْقِ یَا زُبَیْرُ،ثُمَّ أَرْسِلِ الْمَائَ إِلٰی جَارِکَ)’’اے زبیر ! تم(اپنے درختوں کو)پانی پلا لو اور پھر اسے اپنے پڑوسی کے باغ میں چھوڑ دو۔‘‘
تو انصاری صحابی کو سخت غصہ آیا اور وہ کہنے لگا:اے اللہ کے رسول ! کیوں نہیں آخر وہ آپ کی پھوپھی کا بیٹا جو ہوا۔
اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرۂ انور کا رنگ متغیر ہو گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(اِسْقِ یَا زُبَیْرُ،ثُمَّ احْبِسِ الْمَائَ حَتّٰی یَرْجِعَ إِلَی الْجُدُرِ)
ترجمہ:’’زبیر ! اپنے کھیت کو پانی پلاؤ اور جب تک پانی منڈیروں تک نہ پہنچ جائے اسے اس کیلئے مت چھوڑو۔’‘حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:میں سمجھتا ہوں کہ یہ آیت﴿فَلاَ وَرَبِّکَ لاَ یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ۔۔۔﴾[النساء:۶۵]اسی کیس میں نازل ہوئی۔[بخاری:۲۳۵۹،۲۳۶۰۔مسلم:۲۳۵۷]
اسی طرح درجِ ذیل آیت کریمہ بھی اسی معنی کی تائید کر رہی ہے:
﴿فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَئْیٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اللّٰہِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ ج ذٰلِکَ خَیْرٌ وَّاَحْسَنُ تَأْوِیْلاً﴾[النساء:۵۹]
ترجمہ:’’پھر اگر کسی معاملہ میں تمہار ے درمیان اختلاف ہو جائے تو اسے اللہ اور رسول کی طرف لوٹا دو اگر تم اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتے ہو۔ اسی میں بھلائی ہے اور انجام کے لحاظ سے یہی بہتر ہے۔‘‘
الشیخ ابن السعدی رحمہ اللہ اس آیت کریمہ کی تفسیر میں کہتے ہیں: