کتاب: حقیقت شہادتین - صفحہ 145
مضبوط سہارا تھام لیا۔‘‘
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے آگاہ کیا ہے کہ ایک مضبوط سہارا صرف اس شخص کو مل سکتا ہے جو اپنے آپ کو اللہ کے سامنے جھکا دے اور نیک عمل کرے۔
یاد رہے کہ بعض سلف صالحین رحمہم اللہ نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے کہ(العروۃ الوثقی)سے مراد کلمہ طیبہ لاَ إِلٰہَ إِلاَّ اللّٰہُ ہے جیسا کہ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ سورۃ البقرۃ کی اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
﴿فَمَنْ یَّکْفُرْ بِالطَّاغُوْتِ وَیُؤْمِنْ بِاللّٰہِ فَقَدِ اسْتَمْسَکَ بِالْعُرْوَۃِ الْوُثْقٰی لاَ انْفِصَامَ لَہَا وَاللّٰہُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ﴾[البقرۃ:۲۵۶]
ترجمہ:’’پس جس شخص نے طاغوت کا انکار کیا اور اللہ پر ایمان لایا اس نے در حقیقت ایک ایسے مضبوط کڑے کو تھام لیا جو کبھی نہیں ٹوٹے گا۔اور اللہ خوب سننے والا اور جاننے والا ہے۔‘‘
‘’یعنی جس شخص نے بتوں کو،اللہ کے دیگر شریکوں کو اور ہر اس چیز کی عبادت کو چھوڑ دیا جس کی عبادت کی طرف شیطان دعوت دیتا ہے اور اس نے اکیلے اللہ تعالیٰ کی ہی عبادت کی اور اس نے دل سے گواہی دی کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں تو اس نے ایک مضبوط سہارا تھام لیا جس پر وہ ثابت قدم اور صراط مستقیم پر گامزن رہے گا۔۔۔ اور طاغوت سے مراد ہر وہ شر ہے جس پر جاہلیت کے دور میں لوگ قائم تھے مثلا بتوں کی پوجا کرنا،ان کو حَکَم(فیصلہ کرنے والا)تسلیم کرنا اور ان سے مدد طلب کرنا اور(العروۃ الوثقی)کے بارے میں مجاہد رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ اس سے مراد ایمان ہے۔ السدی کہتے ہیں کہ اس سے مقصود اسلام ہے۔سعید بن جبیر رحمہ اللہ اور الضحاک رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ اس سے مراد کلمہ طیبہ لاَ إِلٰہَ إِلاَّ اللّٰہُ ہے۔اور حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ