کتاب: حقیقت شہادتین - صفحہ 144
اخلاص کے نہ ہونے کی وجہ سے عمل کرنے والا منافق ہو جاتا ہے کیونکہ منافق ہی ہیں جو محض لوگوں کو دکھانے کیلئے عمل کرتے ہیں۔اور متابعت کے نہ ہونے کی وجہ سے وہ گمراہ او رجاہل ہو جاتا ہے۔جب یہ دونوں شرطیں کسی عمل میں موجود ہوں تو وہ مومنوں کا عمل بن جاتا ہے اور انہی کے متعلق فرمان الٰہی ہے:
﴿أُوْلٰئِکَ الَّذِیْنَ نَتَقَبَّلُ عَنْہُمْ أَحْسَنَ مَا عَمِلُوْا وَنَتَجَاوَزُ عَنْ سَیِّئَاتِہِمْ فِیْ أَصْحَابِ الْجَنَّۃِ﴾[الأحقاف:۱۶]
ترجمہ:’’یہی وہ لوگ ہیں جن کے نیک اعمال ہم قبول کر لیتے ہیں اور ان کے برے اعمال سے در گذر کرتے ہیں۔یہ جنتی لوگوں میں سے ہیں۔‘‘
اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ملت کی اتباع کرنے کا حکم دیا جو کہ شرک سے منہ موڑنے والے اور پکے موحد تھے کہ کوئی طاقت انھیں توحید سے ہٹا نہ سکی۔اور یہ حکم اللہ تعالیٰ نے متعدد آیات میں دیا ہے۔‘‘[تفسیر ابن کثیر:۱/۵۷۳]
خلاصہ یہ ہے کہ اس آیتِ کریمہ میں دو امر ہیں:
۱۔ کوئی عمل اللہ تعالیٰ کے ہاں قابلِ قبول نہیں جب تک کہ اس میں اخلاص اور سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی متابعت نہ ہو اور یہی انقیاد اور اس کی غرض وغایت ہے۔
۲۔ وہ دینِ حنیف جس کے ساتھ ہمارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان سے پہلے تمام انبیاء ورسل علیہم السلام کو مبعوث کیا گیا و ہی ملتِ ابراہیمی ہے۔
اسی طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿وَمَنْ یُّسْلِمْ وَجْہَہُ إِلَی اللّٰہِ وَہُوَ مُحْسِنٌ فَقَدِ اسْتَمْسَکَ بِالْعُرْوَۃِ الْوُثْقٰی﴾[لقمان:۲۲]
ترجمہ:’’اور جو شخص اللہ کے سامنے سر تسلیم خم کردے اور نیکو کار بھی ہو تو اس نے