کتاب: حقیقت شہادتین - صفحہ 138
حالت میں ہوئی ہو وہ اس شخص سے افضل ہے جس کی پیدائش کفر کی حالت میں ہوئی ہو اور اس نے بعد میں اسلام قبول کیا ہو۔ ان کا یہ نظریہ سراسر غلط ہے کیونکہ اس حدیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جس شخص میں یہ تینوں صفات پائی جاتی ہوں وہ سب سے افضل ہے چاہے اس کی پیدائش اسلام کی حالت میں ہوئی ہو یا کفر کی حالت میں۔یہی وجہ ہے کہ اسلام قبول کرنے والے اولیں صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم ان صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے افضل تھے جن کی پیدائش اسلام کی حالت میں ہوئی حالانکہ وہ(سبقت لے جانے والے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم)پہلے بتوں کی پوجا کرتے تھے۔بلکہ حقیقت یہ ہے کہ گمراہی سے ہدایت کی طرف آنے والے اور برائیوں کو چھوڑ کر نیکیوں کی طرف آنے والے شخص کیلئے اجر وثواب کئی گنا بڑھا دیا جاتا ہے۔[یہ بات شیخ الإسلام رحمہ اللہ نے کہی ہے] ۳۔ اس حدیث میں ان لوگوں پر بھی رد ہے جو یہ کہتے ہیں کہ بندے سے گناہ کا سرزد ہونا اس کے حق میں عیب اور نقص ہے جبکہ صحیح بات یہ ہے کہ وہ عیب اور نقص تب ہے جب وہ اس سے توبہ نہ کرے اور اگر وہ توبہ کرلے تو ایسا نہیں ہے۔ ۴۔ اس حدیث میں اس بات کی دلیل بھی ہے کہ مشرکوں سے دشمنی اور بغض ہونا چاہئے کیونکہ جس شخص کو کفر وشرک سے بغض ہو گا اسے کفر وشرک کرنے والوں سے بھی بغض ہو گا۔[تیسیر العزیز الحمید:۴۷۷] اہلِ علم رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ ایمان کے مٹھاس سے مراد عبادات کی لذت کو محسوس کرنا اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا کی خاطر مشقتیں برداشت کرنا اور انھیں دنیا کے ساز وسامان پر فوقیت دینا ہے۔ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بندے کی محبت کا اظہاراطاعت کرنے اور نافرمانی کو چھوڑنے سے ہوتا ہے۔