کتاب: حقیقت شہادتین - صفحہ 137
مذکورہ آیتِ کریمہ سے درج ذیل باتیں اخذ کی جا سکتی ہیں: ۱۔ عبادات کو اللہ تعالیٰ کیلئے خالص کرنے کا وجوب ۲۔ اللہ تعالیٰ کی جانب سے اور بندے کی جانب سے محبت کا اثبات ۳۔ ان اہلِ ایمان کی اللہ تعالیٰ کی طرف سے تعریف جو اس سے گہری محبت رکھتے ہیں ۴۔ اچھا انجام صرف اہلِ ایمان کیلئے ہی ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: (ثَلاَثٌ مَنْ کُنَّ فِیْہِ وَجَدَ حَلاَوَۃَ الْإِیْمَانِ:أَنْ یَّکُوْنَ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہُ أَحَبَّ إِلَیْہِ مِمَّا سِوَاہُمَا،وَأَنْ یُّحِبَّ الْمَرْئَ لاَ یُحِبُّہُ إِلاَّ لِلّٰہِ،وَأَنْ یَّکْرَہَ أَنْ یَّعُوْدَ فِیْ الْکُفْرِ بَعْدَ إِذْ أَنْقَذَہُ اللّٰہُ مِنْہُ،کَمَایَکْرَہُ أَنْ یُّلْقٰی فِیْ النَّارِ)[بخاری:۱۶،مسلم:۴۳] ترجمہ:’’تین خصلتیں ایسی ہیں کہ جو کسی شخص میں موجود ہوں تووہ ان کے ذریعے ایمان کی لذت اور اس کے مٹھاس کو پا لیتا ہے:پہلی یہ کہ اسے اللہ اور اس کے رسول(صلی اللہ علیہ وسلم)کے ساتھ سب سے زیادہ محبت ہو۔ دوسری یہ کہ اسے کسی شخص سے محبت ہو تو محض اللہ کی رضا کی خاطر ہو۔ اور تیسری یہ کہ اسے کفر کی طرف لوٹنا اسی طرح نا پسند ہو جیسا کہ جہنم میں ڈالا جانا اسے نا پسند ہے۔’‘ امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ یہ حدیث انتہائی عظیم ہے اور اسلام کے اصولوں میں سے ایک اصول کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس حدیث سے کئی فوائد اخذ کئے جا سکتے ہیں جن میں سے چند فوائد یہ ہیں: ۱۔ مومن اللہ تعالیٰ سے محبت کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ان سے محبت کرتا ہے۔ ۲۔ اس میں ان لوگوں پر رد ہے جو یہ کہتے ہیں کہ جس شخص کی پیدائش اسلام کی