کتاب: حقیقت شہادتین - صفحہ 130
کے کہ وہ جھوٹے ایمان کا اظہار کرتے تھے۔’‘ مذکورہ آیات سے ملتی جلتی آیات سورۃ النساء میں بھی ہیں۔فرمان الٰہی ہے: ﴿إِنَّ الْمُنَافِقِیْنَ یُخَادِعُوْنَ اللّٰہَ وَہُوَ خَادِعُہُمْ وَإِذَا قَامُوْا إِلَی الصَّلاَۃِ قَامُوْا کُسَالٰی یُرَاؤُنَ النَّاسَ وَلاَ یَذْکُرُوْنَ اللّٰہَ إِلاَّ قَلِیْلاً ٭ مُذَبْذَبِیْنَ بَیْنَ ذٰلِکَ لاَ إِلٰی ہٰؤُلاَئِ وَلاَ إِلٰی ہٰؤُلاَئِ وَمَنْ یُّضْلِلِ اللّٰہُ فَلَنْ تَجِدَ لَہُ سَبِیْلاً﴾[النساء:۱۴۲۔۱۴۳] ترجمہ:’’بے شک منافق اللہ سے چالبازیاں کر رہے ہیں اور وہ انھیں اس چالبازی کا بدلہ دینے والا ہے۔ اور وہ جب نماز کو کھڑے ہوتے ہیں تو بڑی کاہلی کی حالت میں کھڑے ہوتے ہیں،صرف لوگوں کو دکھاتے ہیں اور ذکرِ الٰہی تو بس برائے نام ہی کرتے ہیں۔وہ درمیان میں ہی معلق ڈگمگا رہے ہیں،نہ پورے اُن کی طرف اور نہ صحیح طور پر اِن کی طرف۔اور جسے اللہ تعالیٰ گمراہی میں ڈال دے تو آپ اس کیلئے کوئی راہ نہیں پائیں گے۔‘‘ الشیخ ابن السعدی رحمہ اللہ مذکورہ آیاتِ کریمہ کی تفسیر میں کہتے ہیں: ‘’اللہ تعالیٰ منافقوں کی بعض قبیح(گندی)صفات کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ ان کا طریقہ یہ ہے کہ وہ اپنے دلوں میں کفر کو چھپاتے ہوئے ایمان کا اظہار کرکے اللہ تعالیٰ کو دھوکہ دینے کی کوشش کرتے ہیں اور وہ یہ گمان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو ان کی حقیقت کا علم نہیں ہے اور وہ اپنے بندوں کو ان کے بارے میں آگاہ نہیں کر سکتا ہے! حالانکہ اللہ تعالیٰ ان کے دلوں کی حالت کو بخوبی جانتا ہے۔وہ درحقیقت اللہ تعالیٰ کو نہیں اپنے آپ کو دھوکہ دے رہے ہیں۔اس سے بڑا دھوکہ کیا ہو سکتا ہے کہ وہ جو کوشش کرتے ہیں اس کا نتیجہ یقیناً ان کی ذلت ورسوائی ہی ہے ! اور ان کی کوشش در