کتاب: حقیقت شہادتین - صفحہ 13
اپنے رب کی نافرمانی کی۔’‘
ابلیس نے تکبر،حسد اور بغاوت کرتے ہوئے سجدہ کرنے سے انکار کیا جس کی سزا اسے بھگتنا پڑی۔چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اسے اپنی رحمت سے دور کردیا اور اس پر اللہ کی لعنت برسنے لگی۔لیکن اس خبیث کی سرکشی میں اور حضرت آدم علیہ السلام اور ان کی اولاد سے اس کے حسد میں اور اضافہ ہو گیا اور اس نے اللہ تعالیٰ سے قیامت تک مہلت طلب کرلی۔اللہ تعالیٰ نے بھی اسے مہلت دے دی۔تب اس نے ایک بات کہی جسے اللہ تعالیٰ نے یوں بیان فرمایا ہے:
﴿قَالَ فَبِمَا أَغْوَیْتَنِیْ لَأَقْعُدَنَّ لَہُمْ صِرَاطَکَ الْمُسْتَقِیْمَ ٭ ثُمَّ لَآتِیَنَّہُمْ مِنْ بَیْنِ أَیْدِیْہِمْ وَمِنْ خَلْفِہِمْ وَعَنْ أَیْمَانِہِمْ وَعَنْ شَمَائِلِہِمْ وَلاَ تَجِدُ أَکْثَرَہُمْ شَاکِرِیْنَ﴾[الأعراف:۱۶۔۱۷]
ترجمہ:’’اس نے کہا:چونکہ تو نے مجھے گمراہ کردیا اس لئے میں تیری سیدھی راہ پر ان کے گھات میں بیٹھا رہوں گا،پھر میں ان پر حملہ کرونگا ان کے آگے سے،ان کے پیچھے سے،ان کے دائیں سے اور ان کے بائیں سے۔اور تو ان میں سے اکثر لوگوں کو شکر گذار نہ پائے گا۔‘‘
مقصودیہ ہے کہ اس نے قسم اٹھائی کہ وہ بنو آدم میں سے اللہ کے بندوں کو سیدھے راستے سے اور راہِ نجات سے ہٹا دے گا تاکہ وہ صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت نہ کریں اور اس کی توحید کا اقرار مت کریں۔اور وہ اس سلسلے میں ہر طریقہ آزمائے گا تاکہ انھیں خیر وبھلائی سے روکے رکھے اور ان کے دلوں میں برائی کی محبت ڈال دے۔
اسی طرح اللہ تعالیٰ کافرمان ہے:
﴿قَالَ رَبِّ بِمَا أَغْوَیْتَنِیْ لَأُزَیِّنَنَّ لَہُمْ فِیْ الْأَرْضِ وَلَأُغْوِیَنَّہُمْ