کتاب: حقیقت شہادتین - صفحہ 124
سعادت اس شخص کو نصیب ہو گی جس نے اپنے دل کی گہرائیوں سے اخلاص کے ساتھ لاَ إِلٰہَ إِلاَّ اللّٰہُ کہا۔’‘
مذکورہ حدیث میں شفاعت سے مراد وہ شفاعت ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کبیرہ گناہوں کے مرتکب موحدین کے حق میں کریں گے اور جس کا اہل السنۃ والجماعۃ اثبات اور اہل بدعت میں سے خوارج اور معتزلہ وغیرہ انکار کرتے ہیں۔[فتح الباری:۱۱/۴۴۳]
جبکہ حضرت عتبان بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ وہ اپنی قوم کو نماز پڑھایا کرتے تھے،پھر ان کی نظر کمزور پڑ گئی اور اچانک بارشیں آئیں اور ان کے اور ان کی قوم کے درمیان ایک وادی حائل ہو گئی جسے عبور کرنا ان کیلئے مشکل ہو گیا۔ چنانچہ انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مطالبہ کیا کہ وہ ان کے گھر تشریف لائیں اور ان کے گھر کے کسی کونے میں نماز پڑھیں تاکہ وہ اسی جگہ کو اپنی مستقل جائے نماز بنا لیں۔تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ تشریف لے گئے اور ابھی گھر میں بیٹھے ہی تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:(أَیْنَ تُحِبُّ أَنْ أُصَلِّیَ مِنْ بَیْتِکَ ؟)’’تم اپنے گھر میں کہاں چاہتے ہو کہ میں وہاں نماز پڑھوں ؟’‘ انھوں نے اپنی پسندیدہ جگہ کی طرف اشارہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو گئے اور ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے صف بنا لی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تکبیر کہی،پھر دو رکعات پڑھیں،پھر سلام پھیرا۔ہم نے بھی آپ کے ساتھ ہی سلام پھیرا۔۔۔۔ اسی حدیث کے آخر میں ہے کہ(فَإِنَّ اللّٰہَ حَرَّمَ عَلیَ النَّارِ مَنْ قاَلَ:لاَ إِلٰہَ إِلاَّ اللّٰہُ،یَبْتَغِیْ بِذٰلِکَ وَجْہَ اللّٰہِ)
‘’اللہ تعالیٰ نے اس شخص کو جہنم کی آگ پر حرام کردیا ہے جس نے خالصتا اللہ کی رضا کیلئے لاَ إِلٰہَ إِلاَّ اللّٰہُ کہا۔‘‘[بخاری:۱۱۸۶،مسلم:۳۳]
جہنم پر حرام ہونا دو قسم کا ہے:ایک جہنم میں داخل ہونا اور یہ اس شخص کے حق میں