کتاب: حقیقت شہادتین - صفحہ 112
نیز اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا علم بندوں کے اعمال کو محیط ہے اور وہ انھیں ان کے اعمال کے مطابق ہی بدلہ دے گا۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿إِلاَّ مَنْ شَہِدَ بِالْحَقِّ وَہُمْ یَعْلَمُوْنَ﴾[الزخرف:۸۶] ترجمہ:’’مگر وہ جو حق کے ساتھ گواہی دیں اور انھیں علم بھی ہو۔‘‘ اس آیت میں(الحق)سے مراد کلمہ طیبہ لاَ إِلٰہَ إِلاَّ اللّٰہُ ہے۔ اور مفہوم یہ ہے کہ مستحقِ شفاعت صرف وہ لوگ ہونگے جنہوں نے اس کلمہ کی گواہی دی اور گواہی بھی علم وبصیرت کی بنیاد پر دی اور اس کے تقاضوں کو پورا کیا۔[تفسیر ابن کثیر:۴/۱۴۷] الشیخ عبد الرحمن بن السعدی رحمہ اللہ کہتے ہیں: ‘’یعنی جس شخص نے زبان سے گواہی دی،دل سے اقرار کیااور اس کے معنی ومفہوم کا علم حاصل کیا تووہ شفاعت کا مستحق ہو گا۔اور(الحق)سے مراد اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور انبیاء ورسل علیہم السلام کی نبوت ورسالت اور ان کی شریعت ہے۔’‘ [تفسیر ابن السعدی:۴/۴۶۱] اورحضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: (مَنْ مَّاتَ وَہُوَ یَعْلَمُ أَنَّہُ لاَ إِلٰہَ إِلاَّ اللّٰہُ دَخَلَ الْجَنَّۃَ) ترجمہ:’’جس شخص کی موت اس حالت میں آئی کہ اسے یقین تھا کہ اﷲ کے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں تو وہ جنت میں داخل ہوگا۔‘‘[مسلم۔کتاب الإیمان باب الدلیل علی أن من مات علی التوحید دخل الجنۃ قطعا۔۲۶] اس کی تائید دیگر کئی احادیث سے ہوتی ہے جن میں سے دو کو یہاں ذکر کیا جاتا ہے: (۱)حضرت عبادۃ بن الصامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: