کتاب: حمید الدین فراہی رحمہ اللہ اور جمہور کےاصول تفسیر تحقیقی و تقابلی مطالعہ - صفحہ 9
یہ نسبت مولانا کی اپنی اختراع معلوم ہوتی ہے۔ان کے اسلاف میں کسی بزرگ کے نام کے ساتھ یہ نسبت نظر نہیں آئی۔[1]
جب کوئی چیز مشہور ہوتی ہے تو تجسس پیدا ہوتا ہے اور لوگ اس کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں۔مولانا کی نسبت سے لفظ ’فراہی‘ کے متعلق سوالات پیدا ہوسکتے ہیں۔سو سب سے پہلے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ’فراہی‘ لغوی اعتبار سے کیا ہے؟ یہ نسبت کس کی طرف ہے اوراس کا ماخذ کیا ہے؟
سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ کا خیال ہےکہ یہ نسبت مولانا کے آبائی گاؤں ’پھریہا‘ کی طرف ہے۔جائے پیدائش کے ذکر میں لکھتے ہیں:
’’اسی پھریہا کو عربی شکل دے کر مولانا اپنے نام کے ساتھ فراہی لکھا کرتے تھے۔‘‘ [2]
لیکن اس بارے میں ڈاکٹر شرف الدین اصلاحی کی تحقیق سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ کے برعکس ہے،ان کے مطابق یہ نسبت ’فراہ‘ کی طرف ہے جو افغانستان کا ایک مقام یا صوبہ ہے،جہاں سے ترکِ سکونت کر کے مولانا کا خاندان ہندوستان آیا،اگرچہ اس امر کی کوئی تاریخی شہادت نہیں ملی۔لیکن مولانا پہلے شخص نہیں جنہوں نے یہ نسبت اختیار کی۔قدیم تاریخ میں ایک سے زیادہ اشخاص کے نام اس نسبت کے ساتھ ملتے ہیں،جیسا کہ مشہور شاعر ابو نصر فراہی،جس کا شعر ہے:؏
ہمی گوید ابو نصر فراہی بہ توفیق خداوند الٰہی
مولانا فراہی رحمہ اللہ بھی شاعر تھے،انہوں نے حمید کے ساتھ فراہی کو بھی بطور تخلص نظم کیا ہے۔[3]
[1] ذکرِ فراہی:ص92
[2] یادِ رفتگاں:ص112
[3] مطبوعہ فارسی دیوان بحوالہ ماہنامہ ’معارف‘ اعظم گڑھ:فروری91ء، ص87