کتاب: حمید الدین فراہی رحمہ اللہ اور جمہور کےاصول تفسیر تحقیقی و تقابلی مطالعہ - صفحہ 33
حاوی تھے۔صحفِ سماویہ کا بڑا وسیع مطالعہ تھا۔یہود ونصاری کی کتابوں پر اچھی نظر تھی۔ان کی ساری دلچسپیوں اورعرق ریزیوں کا محور قر آن پاک تھا۔وہ قرآن پاک پر غور وتدبر کرتے،اس کے بحر معانی میں غواصی کرتے،اس کے تمام اسالیب کو سمجھنے کی کوشش کرتے۔ان کا عقیدہ تھا کہ پورا قرآن ایک مرتب ومنظم کلام ہے،ساری آیات ایک دوسرے سے باہم مربوط ہیں،چنانچہ ان کی تفسیر ’نظام القرآن‘ کا اصل الاصول یہی ہے۔‘‘[1] مولانا ابواللیث اصلاحی ندوی سابق اَمیر جماعت اسلامی ہندبھی مدرسۃ الاصلاح کے زمانہ طالب علمی میں مولانافراہی رحمہ اللہ سے اکتساب فیض کرنے والوں میں شامل ہیں،لکھتے ہیں: ’’وہ تقویٰ،زہد،علم وفضل اوران اخلاقِ حسنہ کے جامع تھے جن سے سلف صالحین متّصف تھے۔عقائد کے باب میں حریت فکر،علومِ عصریہ کا گہرا مطالعہ،حالاتِ حاضرہ کی مکمل خبر اور مقتضیاتِ زمانہ سے حقیقی واقفیت ایسی خصوصیات ہیں جن میں اپنی مثال وہ آپ تھے۔‘‘[2] مولانا ابوالکلام آزاد رحمہ اللہ(1958ء)مولانا فراہی رحمہ اللہ کے بارے میں اپنا خیالات کا اظہار یوں فرماتے ہیں: ’’مولانا حمید الدین فراہی مرحوم،جن کی عبارت پر یہ ہنگامہ برپا کیا گیا ہے،ان علمائے حق میں سے تھے جن کا سرمایۂ امتیاز صرف علم ہی نہیں ہوتا بلکہ عمل بھی ہوتا ہے۔اور اس دوسری جنس کی کمیابی کا جو عالم ہے وہ اہل حق سے پوشیدہ نہیں۔میں جب کبھی ان سے ملا،مجھ پر ان کے علم سے زیادہ ان کی عملی پاکی کا اثر ہوا۔وہ پورے معنوں میں ایک متقی اورراست باز انسان تھے۔ان کے دل کی پاکی اورنفس کی طہارت دیکھ کر رشک ہوتا تھا۔‘‘[3] مولانا عبد الماجد دریا باری لکھتے ہیں: ’’علامہ حمید الدین فراہی رحمہ اللہ اس دور میں علومِ قرآنی کے لحاظ سے امامِ وقت تھے۔وہ تفسیر قرآن میں ایک امتیازی درجہ رکھنے والے نہ صرف اپنے معاصرین ومتاخرین میں تھے،بلکہ کہنا چاہئے کہ تاریخ امت میں انہوں نے تفسیر کے بعض نئے اُصول دریافت کیے۔ان میں سب سے بڑا ان کا فلسفہ نظم قرآن ہے،یعنی ہر سورت بجائےخود ایک مستقل ومنظم ومرتب کلام ہے اور پھر اس طرح ہر سورت اپنے مضمون کے لحاظ سے اپنی قبل والی اور بعد والی سورت سے مربوط ہے۔لکھ جانے کی جتنی ضرورت تھی،اس کے مساعد تو حالات نہ ہو سکے،پھر بھی عربی میں جتنا تحریر فرما گئے وہ بھی اچھا خاصا ذخیرہ ہے۔خدمت قرآن کے مدعی تو بہت ہیں،لیکن مولانا اپنی دقت نظر،عمیق فکر،حکیمانہ ژرف نگاہی،علم وفضل،تبحر ادبی اور تقویٰ وطہارت کے لحاظ سے اپنی آپ نظیر تھے۔‘‘[4] مولانا سید ابوالاعلی مودودی رحمہ اللہ(1979ء)ماہنامہ ’ترجمان القرآن‘ میں رقمطراز ہیں: ’’عام طور پر تسلیم کیا گیا ہے کہ متاخرین میں قرآن مجید کے فہم وتدبر کے لحاظ سے بہت کم لوگ اس مرتبے پر پہنچے ہیں،جس پر اللہ عزو جل نے علامہ فراہی رحمہ اللہ کو سر فراز فرمایا تھا۔انہوں نے اپنی عمر کا بیشتر حصہ کلام اللہ کے معانی میں صرف کیا اور عربی زبان میں
[1] نزهة الخواطر:8؍230 [2] ششماہی ’علوم القرآن‘، جنوری96:مضمون،مولانافراہی رحمہ اللہ ، حیات وخدمات [3] ماہنامہ ’الاصلاح‘:اگست1936،ص57 [4] علامہ حمید الدین فراہی رحمہ اللہ ، اہل علم ودانش کی نظر میں:ص29