کتاب: حمید الدین فراہی رحمہ اللہ اور جمہور کےاصول تفسیر تحقیقی و تقابلی مطالعہ - صفحہ 32
گریجویٹ،زہد و ورع کی تصویر،فضل وکمال کا مجسمہ،فارسی کا بلبل شیراز،عربی کا شوقِ عکاظ،ایک شخصیتِ مفرد لیکن ایک جہانِ دانش،ایک دنیائے معرفت،ایک کائناتِ علم،ایک گوشۂ نشین مجمع کمال،ایک بے نوا سلطانِ ہنر،علوم ادبیہ کا یگانہ،علومِ عربیہ کا خزانہ،علومِ عقلیہ کا ناقد،علومِ دینیہ کا ماہر،علوم القرآن کاواقفِ اسرار،قرآن پاک کا دانائے رموز،دُنیا کی دولت سے بے نیاز،اہل دنیا سے مستغنی،انسانوں کے ردّ وقبول اور عالم کی داد وتحسین سے بے پروا،گوشۂ علم کامعتکف اور اپنی دنیا کا آپ بادشاہ،وہ ہستی جو تیس برس کامل قرآن اور صرف قرآن کے فہم وتدبر اور درس وتعلیم میں محو،ہر شے سے بیگانہ اورشغل سے نا آشنا تھی۔‘‘[1] مولانا مناظرا حسن گیلانی رحمہ اللہ(1956ء)بھی مولانا فراہی رحمہ اللہ کے خوشہ چینوں میں شامل ہیں۔ایک جگہ لکھتے ہیں: ’’میرا قیام دیوبند میں کچھ تو طالبِ علم کی حیثیت سے رہا اور کچھ دن مدرسہ کی ملازمت اور خدمت میں گذرے کہ اچانک مجھے مقادیر نے حیدر آباد پہنچادیا۔مولانا فراہی رحمہ اللہ کی قرآن دانی کا شہر ہ سن چکا تھا اور خدانے ان کی صحبت کی سعادت سے سرفراز کیا اور قرآن کے چند جدید پہلو مجھ پر مولانا کی صحبت میں کھلے۔‘‘[2] ایک مقام پر مولانا مناظر احسن گیلانی ہندوستانی مفسرین کے کارنامے بیان کرنے کےبعد لکھتے ہیں: ’’مگر یہ تو پچھلے زمانے کی بات ہے،جب کہ میں نے عرض کیا کہ ولی اللّٰہی تجدید کے بعد ہندوستان نے اپنی نشاۃِ ثانیہ میں جو کام اس سلسلے میں انجام دیا ہے۔میرا اشارہ حضرت الاستاذ مولانا حمید الدین فراہی رحمہ اللہ کی تفسیر ’نظام القرآن‘ کی طرف ہے،جس میں علاوہ دوسر ی خوبیوں کے(یعنی قرآن اور بائبل کے تعلقات اور ادبی مباحث)سب سے بڑی اور مشترک خصوصیت مولانا کی اس تفسیر کے تمام حصوں میں یہی ہے کہ انہوں نے آیاتِ قرآنی میں ربط پید ا کرنے کی ایسی عدیم النظیر کوشش فرمائی ہے کہ بسا اوقات صرف آیات کے یہی روابط اس کی دلیل بن جاتے ہیں کہ یہ کتاب خدا کے سوا کسی اور کی طرف سے نہیں ہوسکتی۔‘‘[3] نواب صدر یار جنگ،مولانا حبیب الرحمٰن خان شیروانی(1950ء)سابق چانسلر جامعہ عثمانیہ حیدر آباد اہل علم کے قدر شناس تھے،لہٰذا مولانا فراہی رحمہ اللہ کی صحبت سے بھی اکتسابِ فیض کیا۔مولانافراہی رحمہ اللہ کی وفات کے بعد سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ کو خط لکھا: ’’مجھے مولانا سے دیرینہ نیاز حاصل تھا۔ابتدائی ملاقات کا ذریعہ علامہ شبلی مرحوم تھے۔علی گڑھ کی پروفیسری کے زمانہ میں ملا،پھر حیدر آباد میں،علی گڑھ کے دور میں بھی تدبر قرآن کا شرف جاری رہا۔روزانہ تین بجے شب سے صبح نو بجے تک اس میں وقت صرف کرتے تھے۔ملاقات کے وقت نتائجِ تحقیق بیان فرماتے۔اس زمانہ میں دیگر کتبِ سماوی کا اوراس کی مدد سے مطالبِ قرآ ن کا حل خاص کر پیش نظر تھا۔‘‘[4] ندوۃ العلماء کے سابق ناظم مولانا عبد الحی رحمہ اللہ لکھنوی(1923ء)مولانا فراہی رحمہ اللہ کے بارے میں رقمطراز ہیں: ’’وہ چوٹی کے علماء میں سے تھے۔علومِ ادبیہ سے پوری واقفیت رکھتے تھے۔انشا واَدب پر پورا عبور حاصل تھا۔ادباء اور ادب سے انہیں بڑا لگاؤ تھا۔فہم وفراست،ذکاوت وذہانت،زہد وتقویٰ،نیک نفسی وبلند ہستی کی وہ تصویر تھے۔لایعنی باتوں سے بہت دور،انبار دنیا سے بالکل بےپروا،عربی علوم میں انہیں رسوخ حاصل تھا۔بلاغت پر گہری نظر تھی۔جاہلی دواوین اور عربی اسالیبِ کلام پر وہ
[1] يادِ رفتگاں:ص 110 [2] علامہ حمید الدین فراہی رحمہ اللہ ، اہل علم ودانش کی نظر میں:ص28 [3] ہندوستان میں مسلمانوں کا نظام تعلیم وتر بیت از گیلانی:2 ؍ 280 [4] یادِ رفتگان:ص118