کتاب: حمید الدین فراہی رحمہ اللہ اور جمہور کےاصول تفسیر تحقیقی و تقابلی مطالعہ - صفحہ 315
قواعدِ عربیہ کی بنیاد پراہل زبان کے کلام کو غلط کہنا اس لئے بھی درست نہیں کہ قواعدِ عربیہ جس طرح اپنی وضع میں غلطی سے محفوظ نہیں اسی طرح اپنے استعمال میں بھی کجی سے مُبرا نہیں۔یعنی جس طرح ان قواعد کے استنباط میں غلطی ہوسکتی ہے اسی طرح ان کے برمحل استعمال کرنے میں بھی غلطی ہوسکتی ہے کیونکہ یہ قواعد کلیات(Formulas)ہیں اور ان کلیات کو جزئیات پرمنطبق(Apply)کرتے وقت انسان بسا اوقات غلطی کرجاتا ہے۔
علاوہ ازیں قواعدِ عربیہ کی بناء پر فصیح اللّسان عربوں کے کلام کو اس لئے بھی غلط قرار نہیں دیا جاسکتا کیونکہ اگر بالفرض مان لیا جائے کہ قاعدہ کے استنباط میں غلطی واقع نہیں ہوئی لیکن یہ امکان پھر بھی باقی رہتا ہے کہ ہوسکتا ہے قاعدہ محفوظ نہ رہا ہو یا اگر محفوظ بھی رہا ہو تو انطباق(Application)کے وقت لاگو کرنے والے کو اچھی طرح یاد نہ ہو۔
ان تمام وجوہات کے پیش نظر ہم یہ بات بلا خوفِ تردید کہہ سکتے ہیں کہ قواعدِ عربیہ ہرگز یہ حق نہیں رکھتے کہ ان کی بنیاد پر خود اہل زبان کے کلام کو غلط قرار دیا جاسکے۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی درایت تفسیری پر طعن کیا جا سکے۔
یوں بھی قواعد تو غیر اہل زبان کیلئے وضع کئے گئے ہیں نہ کہ اہل زبان کیلئے۔لہٰذا قواعد کی پابندی صرف غیر اہل زبان پرلازم ہے۔فصحائے عرب میں سے اگر کسی کے کلام میں قاعدہ کی مخالفت پائی جائے تو اس کلام کو غلط نہیں کہا جائے گا بلکہ حتی الامکان اس کی قاعدے کے ساتھ موافقت پیدا کی جائے گی یا کوئی مناسب تاویل کی جائے گی یا زیادہ سے زیادہ اس کلام کو شاذّ کہہ دیا جائے گا۔
الغرض اہل زبان کو قواعد کے تابع نہیں کیا جاسکتا کیونکہ قواعد تو خود انکے کلام سے ماخوذ ہیں بلکہ قواعد کو انکے تابع کیا جائے گا۔
6۔ علومِ عربیہ کے قواعد صحابہ کرام اور دیگر اہل زبان کے محاورے اور اس محاورے سے ان کی مراد اور فہم کو سامنے رکھ کر بنائے گئے ہیں،اور قرآنِ مجید بھی ان کے محاورات میں سے ایک محاورہ ہے۔اگر قرآنِ مجید میں ان کے فہم کااعتبار نہیں کیا جاتا تو اس کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ ان قواعد کا بھی اعتبار نہ کیا جائے جو ان کے محاورے سے اخذ کئے گئے ہیں اور اگر ان قواعد کو مانا جاتا ہے تو عدل یہی ہے کہ قرآنِ کریم میں بھی ان کے فہم کو تسلیم کیا جائے۔
7۔ قواعدِ عربیہ قرآن مجید،حدیث مبارکہ اور دیگر اہل زبان کے محاورات سے مستنبط ہیں اور استنباط کیلئے یہ ضروری ہے کہ جس حدیث،آیت یا شعر سے قاعدہ اخذ کیا جائے،پہلی اچھی طرح اس کا مطلب سمجھا جائے۔مثال کے طور پر ہم آیت مبارکہ:
﴿وَلَا تُخَاطِبْنِي فِي الَّذِينَ ظَلَمُوا إِنَّهُمْ مُغْرَقُونَ﴾[1]سےیہ قاعدہ اَخذ کرتے ہیں کہ کبھی کبھی کسی شخص کے ساتھ سائل کے جواب کے انداز میں خطاب کیا جاتاہے باوجودیکہ اس نے سوال نہیں کیا ہوتا۔تو اس کیلئے ضروری ہے کہ پہلے ہمیں اس آیتِ مبارکہ کا مفہوم اور مطلب معلوم ہو۔
اب جو شخص ان قواعد کو مانتا ہے،اسے واضعینِ قواعد کی درایت تفسیری پراعتماد ہونا چاہئے۔الغرض جب واضعین قواعد کی درایت تفسیری حجّت ہے تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی درایت تفسیری کی حجیت پر اس سے بڑھ کر اعتماد ہونا چاہئے کیونکہ وہ عرب اُول تھے اور قرآنِ مجید عرب اول کے محاورے کے مطابق نازل ہوا ہے۔چنانچہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی درایت تفسیری سب سےمقدّم ہے،ہاں البتہ اگر کوئی اس سے قوی دلیل مل جائے تو اس کو چھوڑا جاسکتا ہے۔
[1] سورة هود، 11:37