کتاب: حمید الدین فراہی رحمہ اللہ اور جمہور کےاصول تفسیر تحقیقی و تقابلی مطالعہ - صفحہ 314
5۔ بلا شبہ ہم عربی زبان کو صرف و نحو،اُصول،معانی اور بیان وغیرہ کے قواعد کی مدد سے ہی سمجھتے ہیں اور یہ قواعد قرآن و حدیث اور ادبِ عربی سے ماخوذ ہیں کیونکہ یہ استقرائی علوم ہیں اور استقرائی علوم جزئیات کی بحث و تحقیق سے ہی وجود میں آتے ہیں۔ علومِ عربیہ کے یہ قواعد ائمہ لغت نے اخذ کیے ہیں مثلاً آیت:﴿وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَّ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا[1]سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جس عورت کا خاوند فوت ہوجائے،خواہ وہ حاملہ ہو،اس کی عدت چار ماہ دس دن ہے جبکہ دوسری آیت﴿وَأُولَاتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَنْ يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ[2]سے پتہ چلتا ہے کہ ایسی عورت کی عدت وضع حمل ہے۔ چنانچہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ پہلی آیت دوسری آیت کے ساتھ منسوخ ہے۔ لہٰذا عدت وضع حمل ہی ہوگی جبکہ سيدنا علی رضی اللہ عنہ کے نزدیک عورت ان دونوں عدتوں میں سے وہ عدت اختیار کرے گی جس کی مدت زیادہ لمبی ہو کیونکہ دونوں آیتوں میں بظاہر ٹکراؤ پیدا ہورہا ہے اور ایسی صورت میں احتیاط پر عمل کرنا ہی بہتر ہوتا ہے اور احتیاط اسی میں ہے کہ زیادہ مدّت والی عدت گزاری جائے۔[3] الغرض ان دونوں آیتوں میں عموم پایا جاتا ہے چنانچہ سيدنا علی اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما دونوں نے ان آیتوں کوعموم پر ہی باقی رکھا۔علمائے اصول نے جب صحابہ کرام اور دیگر اہلِ لغت کو دیکھا کہ وہ عمومات سے استدلال کرتے ہیں تو یہ قاعدہ وضع کردیا کہ ’’عام اپنے تحت آنے والی تمام جزئیات کا احاطہ کئے ہوئے ہوتا ہے،خواہ یہ جزئیات اس لفظ کے تحت ظنی طور پر داخل ہوں یا قطعی اور یقینی طور پر۔‘‘ اسی طرح جب علمائے معانی نے دیکھا کہ قرآن و حدیث اور دیگر اہل زبان جب کسی بات سے انکاری سے گفتگو کرتے یا کسی سوال کا جواب دیتے ہیں تو اپنی گفتگو میں ایسے الفاظ استعمال کرتے ہیں جن سے کلام میں تاکید پیدا ہوجائے،تو انہوں نے یہ قاعدہ بنا دیا کہ ''کل حکم یخاطب به المنکر أو السّائل يجب توكيده أو یستحسن" کہ جب کسی بات کا انکار کرنے والے یا کسی چیز کے متعلّق سوال کرنے والے کےساتھ گفتگو کی جائے تو تاکید کے انداز میں بات کرنا واجب یا کم از کم ایک مستحسن اَمرہے۔ الغرض ائمہ لغت نے الفاظ و معانی کے متعلّق ہزارہا قواعد وضع کئے اور یہ تمام قواعد قرآن و حدیث اور عربوں کی بول چال سے ہی اخذ کئے ہیں۔ اس تمام بحث کا مقصود یہ ہے کہ چونکہ قواعدِ عربیہ ائمہ لغت کے استنباط اور استدلال کا نتیجہ ہیں لہٰذا اس استنباط میں غلطی کے امکان کو مسترد نہیں کیا جاسکتا۔یہی وجہ ہے کہ بہت سے قواعدِ لغویہ میں ائمہ لغت کا باہم اختلاف بھی موجود ہے۔ بایں ہمہ صحابہ کی درایت تفسیری کی حجیت کے منکرین ان قواعدِ عربیہ سے استدلال کرتے ہیں اور انہیں بطور دلیل بھی پیش کرتے ہیں اور ان قواعد کی بنیاد پر اہل زبان(صحابہ کرام رضی اللہ عنہم)کے بیان کردہ معانی کو رد بھی کرتےہیں۔
[1] سورة البقرة، 2:234 [2] سورة الطلاق، 65:4 [3] جامع البيان:23 ؍ 454