کتاب: حمید الدین فراہی رحمہ اللہ اور جمہور کےاصول تفسیر تحقیقی و تقابلی مطالعہ - صفحہ 312
کے نزدیک حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اہل زبان ہونے کے باوجود اہل زبان کے برابر بھی لغتِ عرب میں مہارت نہیں رکھتے تھے۔ حالانکہ علوم عربیہ کا معیارفہم عرب اول ہے،جو مسئلہ ان کے فہم کے مطابق ہو وہ صحیح ہے اور جو خلاف ہو وہ غلط۔یہ علوم تو کئی برس کے بعد مدوّن ہوئے ہیں۔لہٰذا ان سے وہیں تک استدلال درست ہے جہاں تک فہم عرب اول کے خلاف نہ ہوں۔ شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "وأما لغة القرآن فينبغي أخذها من استعمال العرب الأول ولكن الاعتماد الكلّي على آثار الصحابة والتابعين،وقد وقع في نحو القرآن خلل عجيب وذلك أن جماعة منهم اختاروا مذهب سيبويه،وما لم يوافقه فهم يؤوّلونه وإن كان تأويلًا بعيدا،وهذا عندى غير صحيح فينبغي اتّباع الأقوى وما كان أوفق للسّياق والسّباق سواء كان مذهب سيبويه أو مذهب الفرّاء... وأما المعاني والبيان فهو علم حادث بعد انقراض الصّحابة والتّابعين فما يفهم منه في عرف جمهور العرب فهو على الرّأس وما كان من أمر خفي لا يدركه إلا المتعمّقون من أهل الفنّ فلا نسلم أن يكون مطلوبا في القرآن"[1] کہ لغت قرآن کو عرب اول کے محاورات سے اخذ کرنا چاہئے لیکن مکمل اعتماد بہرحال آثار صحابہ و تابعین پر ہی ہے۔اور قرآنِ مجید کی نحو میں عجیب خلل واقع ہوا ہے وہ یوں کہ بعض لوگوں نے سیبویہ(180ھ)کے مذہب کو اختیار کرلیا پھر جو لفظ مذہبِ سیبویہ کے خلاف آئے اس کو تاویل کرکے سیبویہ کے موقف کے مطابق بناتے ہیں خواہ وہ دور اَز صواب ہی نہ ہو۔یہ انداز میرے نزدیک درست نہیں،بلکہ چاہئے تو یہ کہ موقف زیادہ قوی اور سیاق و سباق کے مطابق ہو،اسی کی اتباع کی جائے خواہ وہ سیبویہ کا مذہب ہو یا فراء(207ھ)کا۔... جہاں تک معنی و بیان کا تعلق ہے تو یہ علوم صحابہ رضی اللہ عنہم و تابعین رحمہم اللہ کے بعد وجود میں آئے ہیں لہٰذا ان علوم میں سے جو چیز جمہور عرب کے عرف میں سمجھی جاتی ہو اسے ہم قبول کرتے ہیں اورجس کو صرف متعمقین اہل فن سمجھتے ہیں وہ ہمارے ہاں مقبول نہیں اورنہ ہی ہم یہ تسلیم کرتے ہیں کہ وہ بھی قرآن مجید میں مطلوب ہے۔ 4۔ قرآنِ مجید کو سمجھنے کیلئے صرف لغت کافی نہیں بلکہ حدیث نبوی اور تفسیر صحابہ کی بھی ضرورت ہے کیونکہ بعض اوقات لغت میں کسی لفظ کا معنی کچھ اور ہوتا ہے جبکہ شریعت میں اس سے کچھ اور مراد ہوتا ہے مثلاً لغت میں صوم کا معنی ہے:رُکے رہنا۔حج کا معنی:قصد کرنا،لفظ صلوة کا معنی تحريك الصّلوین یعنی کولہے ہلانا۔یا دُعا لکھا ہوا ہے،جبکہ اصطلاحِ شریعت میں ان سے مراد مخصوص ارکان کی ادائیگی ہے چنانچہ اگر ہم صرف لغت پر اکتفا کریں تو ایک بھی شرعی حکم ثابت نہیں ہوسکتا۔ اگر کوئی یہ کہے کہ ان الفاظ کے جو معانی شریعت میں مراد ہیں وہ بھی لغت میں لکھے ہوئے ہیں مثلاً صلوۃ کے معنی ’ارکانِ مخصوصہ‘ جو شریعت نے بتلائے ہیں،وہ قاموس میں لکھے ہوئے ہیں،لہٰذا یہ کہنا کہ ان الفاظ کےمعانی لغت اور شرع میں مختلف ہیں،غلط ہے۔تو اس کے جواب میں ہم کہیں گے کہ کسی بھی اصطلاح کا علم اس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک خود اہل اصطلاح بیان نہ کریں مثلاً ماضی،مضارع،اسم فاعل اور اسم مفعول علم الصرف کی اصطلاحات ہیں۔فاعل،مفعول،حال اورتمیز وغیرہ علم نحو کی اصطلاحات ہیں۔
[1] الفوز الکبیر:ص79، 80