کتاب: حمید الدین فراہی رحمہ اللہ اور جمہور کےاصول تفسیر تحقیقی و تقابلی مطالعہ - صفحہ 305
عربی کے امام ہیں،جن کے محاورہ کے مطابق قرآنِ کریم نازل ہوا ہے،مگر انہیں لفظ کی مراد سمجھنے میں دشواری پیش آتی ہے اور وہ اس وقت ہی قرآنِ کریم کا مقصد پاسکے ہیں،جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی وضاحت فرمائی۔
10۔ جب آیتِ کریمہ نازل ہوئی:﴿مَنْ يَعْمَلْ سُوءًا يُجْزَ بِهِ﴾کہ جس نے برائی کا کوئی کام کیا تو اسے ضرور اس کا بدلہ دیا جائے گا۔تو صحابہ کرام سخت پریشان ہوگئے۔تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:((قَارِبُوا وَسَدِّدُوا فَفِي كُلِّ مَا يُصَابُ بِهِ الْمُسْلِمُ كَفَّارَةٌ حَتَّى النُّكْبَةِ يُنْكَبُهَا أَوِ الشَّوْكَةِ يُشَاكُهَا))[1] کہ ایک دوسرے کے قریب رہو اور اور سچی بات پر ڈٹے رہو،اس دنیا میں بھی اہل ایمان کو جو تکالیف اور پریشانیاں پیش آتی ہیں،وہ ان کے کسی نہ کسی گناہ کا کفارہ بن جاتی ہیں حتیٰ کہ کسی مومن کے پاؤں میں کانٹا بھی چبھتا ہے تو وہ اس کے لئے کفارہ بن جاتا ہے۔
بعض روايات میں یہ سیدنا ابو بکر کے حوالے سے بیان کیا گیا ہے،[2]تو سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نسلی عرب ہیں،ان کی مادری زبان عربی ہے،انہیں أعلم الصحابه کہا جاتا ہے مگر قرآنِ کریم کی ایک آیتِ کریمہ کا مفہوم نہیں سمجھ پائے اور نبی ا کرم صلی اللہ علیہ وسلم نے وضاحت فرمائی تو بات ان کی سمجھ میں آئی ہے۔
اسی لیے ناصرالدین البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’میرا دعویٰ ہے کہ چاہے کوئی عربی کا بہت بڑا ماہر ہو یا فہم و ادراک میں یکتا ہو،ماہر لسانیات ہو،وضاحت و تشریح کی غیر معمولی صلاحیتوں کا مالک ہو۔وحی غیر متلوّ(سنتِ مطہرہ)کے بغیر قرآنِ مجید کے اصل مفہوم کو مکمل طور پر سمجھ ہی نہیں سکتا۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام سے زیادہ اور کون ہے جو لغتِ عربی کوسمجھنے کی قابلیت رکھتا ہو۔ان کی مادری زبان عربی میں ہی قرآن حکیم نازل ہوا،پھر بھی کئی آیات کے مطالب کو سمجھنا ان کیلئے ناممکن ہو گیا۔مجبوراً انہیں سمجھنے کیلئے نبی ا کرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہی رجوع کرنا پڑا۔‘‘[3]
یہ بات بڑی قابل تعجّب ہے کہ جب ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو متنِ قرآن کی روایت میں اتھارٹی تسلیم کرتا ہے تو ان کے ارشادات و فرمودات کو بطور تفسیر قرآن تسلیم کرنے میں کیا مانع ہے ؟
[1] صحيح مسلم:كتاب البر والصلة والآداب، باب ثواب المؤمن فيما يصيبه من مرض أو حزن أو نحو ذلك، 2574
[2] حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے سورۂ نساء کی اس آیت کریمہ (نمبر 123) کی تفسیر میں اسے سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب کیا ہے۔
[3] قرآن فہمی کے بنیادی اسباب:ص101