کتاب: حمید الدین فراہی رحمہ اللہ اور جمہور کےاصول تفسیر تحقیقی و تقابلی مطالعہ - صفحہ 304
((إِنَّ وِسَادَكَ إِذًا لَعَرِيضٌ أَنْ كَانَ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ وَالْأَسْوَدُ تَحْتَ وِسَادَتِكَ))[1] کہ اگر سفید اور سیاہ دھاری تمہارے تکیے کے نیچے آجائے تو پھر تو تمہارا تکیہ بہت ہی چوڑا ہے۔اس کے بعد سیدنا عدی بن حاتم بات کو سمجھے اور تکیہ کے نیچے سے دھاگے کی ڈوریاں نکال لیں۔ غور طلب بات یہ ہے کہ عدی بن حاتم عربی ہیں اور عربی کے بیٹے ہیں،سردار ہیں اور سردار کے بیٹے ہیں مگر قرآنِ کریم کا بیان کردہ محاورہ سمجھنے میں غلطی لگ گئی اور اس وقت قرآنِ کریم کا مطلب نہیں سمجھ پائے جب تک خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی وضاحت نہیں فرما دی۔اس لئے اگر آج کوئی عربی یا عجمی شخص یہ کہتا ہے کہ وہ محض ’عربی دانی‘ کے زور پر قرآنِ کریم کا مفہوم و مراد کو پاسکتا ہے تو یہ بات کیسے قبول کی جاسکتی ہے ؟ یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ ایک شخصی واقعہ ہے اور کسی بھی شخص کو ذاتی طور پراس قسم کا مغالطہ ہو سکتا ہے،ا س لئے ایک اجتماعی مثال بھی حسبِ ذیل ہے۔ 9۔ حدیث مبارکہ میں ہے کہ جب سورۂ انعام کی حسب ذیل آیت مبارکہ نازل ہوئی:﴿الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُمْ بِظُلْمٍ أُولَئِكَ لَهُمُ الْأَمْنُ وَهُمْ مُهْتَدُونَ﴾کہ جولوگ ایمان لائے پھر اپنے ایمان کو ظلم(شرک)سے آلودہ نہیں کیا۔انہی کیلئے امن وسلامتی ہے اور یہی لوگ راہ راست پر ہیں۔تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں بے چینی پھیل گئی۔انہوں نے ظلم کا عام مفہوم سمجھا کہ لوگوں میں باہمی معاملات و حقوق اور لین دین میں جو کمی بیشی اور حق تلفی ہو جاتی ہے وہ ظلم ہے،اور بلا شبہ ’ظلم‘ کا عمومی مفہوم یہی ہے۔انہیں پریشانی اس بات پر ہوئی کہ یہ کمی بیشی تو انسانی معاشرت کا حصہ ہے اور روز مرہ معاملات میں کہیں نہ کہیں ہو ہی جاتی ہے،اس سے مکمل گریز کو اگر ایمان و ہدایت کیلئے شرط قرار دیا جائے تو بہت کم لوگوں کا ایمان قبولیت کے معیار پر پورا اُترے گا۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی پریشانی اس حد تک بڑھی کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کچھ حضرات پیش ہوئے اور اپنے اضطراب کا اظہار ان الفاظ میں کیا:وأینا لم یظلم یا رسول اللّٰہ!؟ کہ یا رسول اللہ!ہم میں سے کون ہے جس سے تھوڑی بہت زیادتی نہیں ہو جاتی؟ نبی ا کرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جواباً ارشاد فرمایا:((لَيْسَ هُوَ كَمَا تَظُنُّونَ،إِنَّمَا هُوَ كَمَا قَالَ لُقْمَانُ لِابْنِهِ:﴿يَابُنَيَّ لَا تُشْرِكْ بِاللّٰهِ إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ[2] کہ یہ وہ ظلم نہیں جو تم سمجھ رہے ہو،بلکہ اس سے مراد وہ ہے جو لقمان نے اپنے بیٹے کو(نصیحت کرتے ہوئے)کہا تھا کہ اے میرے پیارےبیٹے!اللہ کے ساتھ شرک نہ کرنا،یقیناً شرک تو بہت بڑا ظلم ہے۔ اب قرآنِ کریم میں عام طور پر بولا جانے والا ایک لفظ استعمال ہوتا ہے اور مخاطب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سب کے سب عرب بلکہ
[1] صحيح البخاري:كتاب تفسير القرآن، باب قوله:﴿وَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ﴾، 4509 ؛ صحيح مسلم:كتاب الصّيام، باب بيان أنّ الدّخول في الصّوم يحصل بطلوع الفجر، 1090 [2] صحيح البخاري:کتاب أحاديث الأنبياء، باب قوله تعالى:﴿وَلَقَدْ آتَيْنَا لُقْمَانَ الْحِكْمَةَ أَنِ اشْكُرْ لِلّٰهِ﴾، 3428 ؛ صحيح مسلم:كتاب الإيمان، باب صدق الإيمان وإخلاصه، 124