کتاب: حمید الدین فراہی رحمہ اللہ اور جمہور کےاصول تفسیر تحقیقی و تقابلی مطالعہ - صفحہ 299
ایک معنی ہوتے ہیں اور شرع اس سے اور معنیٰ مراد لیتی ہے۔مثلاً لفظِ صلوٰۃ کے معنی تحریک الصلوین کے ہیں اور شرع میں اَرکان مخصوصہ سے بارت ہے پس اگر ہم صرف لغت پر اکتفا کریں تو ایک حکمِ شرعی بھی ثابت نہ ہوگا۔‘‘[1] مزید فرماتے ہیں: ’’لغت میں بعض الفاظ کے چند معانی لکھے ہیں،جیسے لفظ صلوٰۃ اور زکوٰۃ ہے۔تو یہ کہاں سے معلوم ہوگا کہ آیتِ کریمہ﴿وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ﴾میں صلوٰۃ بمعنیٰ عبادة فيها ركوع وسجود اور زكوٰة بمعنیٰ ما أخرجته من مالك لتطّهره مراد ہیں۔شاید صلوٰۃ بمعنیٰ دُعا مراد ہو اور زکوٰۃ بمعنیٰ تطہیر نفس مراد ہو؟ الغرض آیت دو معانی کے درمیان مشترک ہے۔ایک کی تعیین بغیر مرجح کے نہیں ہو سکتی،پس کوئی مرجّح قائم کرنا چاہئے۔اور ظاہر ہے کہ اس کا تعین سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ہی ہوگا۔‘‘[2] بعض حضرات یہ تو تسلیم کرتے ہیں کہ حدیث قرآنِ مجید کی مفسر ہے اور اس کے مصداق کی تعیین کرتی ہے مگر اس کے ساتھ یہ بھی اضافہ کرتے ہیں کہ کبھی حدیث اسکے سیاق وسباق یا لغت ومحاورہ کے خلاف ہوتی ہے تو وہ حدیث قرآن کی مفسر نہیں ہو سکتی۔سر سید احمد خان(1898ء)بھی اپنے ایک خط میں نواب محسن الملک(1907ء)کو لکھتے ہیں: ’’اگر میری تفسیر کے کسی مقام کو خلافِ سیاق کلام اور خلافِ الفاظِ قرآن اور خلافِ محاورۂ عرب جاہلیت ثابت کر دو تو میں اسی وقت اپنی غلطی کا مقر ہو جاؤں گا،مگر مجاز وحقیقت میں یا استعارہ وکنایہ یا خطابیات میں بحث مت کرنا،کیونکہ جیسا تم کو کسی لفظ کے حقیقی یا مجازی معنیٰ لینے کا حق ہے ویسا ہی مجھ کو اس کے مجازی معنیٰ لینے یا استعارہ اور کنایہ یا از قسم خطابیات قرار دینے کا حق ہے۔‘‘[3] اس کے جواب میں محدث روپڑی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’کہ حدیث کے خلاف ہمارے متعین کردہ سیاق وسباق کی کوئی حیثیت نہیں۔جس حدیث کو حاضرینِ وحی نے(جن کے سامنے قرآن اُترا اور جنہوں نے احادیثِ نبویہ اپنے کانوں سے سنیں)سیاق وسباق اور محاورۂ عرب کے خلاف نہیں گردانا،ہم کس طرح خلاف گردان سکتے ہیں۔جو شخص کسی قضیہ میں حاضر ہو،جیسے وہ حقیقتِ حال کو سمجھتا ہے،غائب نہیں سمجھ سکتا۔مشہور ہے:الشاهد يرى ما لا يراه الغائب۔حدیث میں ہے:لیس الخبر کالمعاینة اس کے ساتھ وہ عرب العرباء تھے،بال کی کھال نکالتے تھے۔اس زمانے کے محاورات گو آج تک کتابوں میں جمع ہیں،مگر وہ ان کو خوب جانتے تھے۔قرآنِ مجید ان کے محاورہ کے مطابق اُترا۔اللہ عزو جل ان کو بالخصوص احسان جتا کر فرماتا ہے:﴿إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ قُرْآنًا عَرَبِيًّا لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ[4] ظاہر میں تو یہ لوگ حدیث کو مانتے ہیں مگر جب کسی حدیث کو ردّ کرنا چاہتے ہیں یا کچھ اس کا مطلب الٹ پلٹ بیان کرنا چاہتے ہیں تو کسی آیت کا مطلب اپنے فہم سے بقواعدِ عربیہ بیان کرکے کہتے ہیں کہ یہ حدیث اس آیت کے خلاف ہے،اس لئے معتبر نہیں۔جب ان
[1] درایتِ تفسیری:ص 45، 46 [2] ایضاً:ص 46 [3] تحریر في أصول التفسیر:ص5، 6 [4] درایتِ تفسیری:ص 47