کتاب: حمید الدین فراہی رحمہ اللہ اور جمہور کےاصول تفسیر تحقیقی و تقابلی مطالعہ - صفحہ 298
متکلّم(اللہ تعالی)کو مخاطب کا عرف مقصد ہے۔جہاں تک اس بات کا تعلّق ہے کہ منافقین کیلئے دُعا کرنا مطلقاً منع ہے تو یہ اس دلیل سے نہیں بلکہ دوسری دلیل سے ثابت ہوتا ہے۔[1] ایک لفظ کے دو معانی میں سے لغوی معنیٰ کو ترجیح دینے کی مثال اللہ عزو جل کا یہ فرمان ہے: ﴿خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ[2] کہ آپ ان کے مال سے صدقہ(زکوٰۃ)وصول کرلیں جس سے آپ انہیں(ظاہر میں بھی)پاک اور(باطن میں بھی)پاکیزہ کرتے ہیں اور ان کے حق میں دُعائے خیر کریں۔محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ مذکورہ آیت میں آنے والے لفظِ صلاۃ کے بارے میں لکھتے ہیں: ’’اس سے یہاں مراد دُعا ہے اسکی دلیل مسلم میں سیدنا عبداللہ بن ابو اوفی رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث ہے کہ جب کسی قوم کی طرف سے زکوٰۃ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچتی تو آپ ان کیلئے دُعا فرماتے۔میرے والد اپنی زکوٰۃ لے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آ پ نے دُعا فرمائی:((اللّٰهُمَّ صَلِّ عَلَىٰ آلِ أَبِي أَوْفَیٰ))کہ اے اللہ!ابو اوفیٰ کی آل پررحمتیں نازل فرما۔‘‘[3] یہی وجہ ہے کہ شرعی اصطلاحات کو صرف لغت کی بنیاد پر نہیں سمجھا جاسکتا جب تک کہ مقصدِ شارع معلوم نہ ہو۔ سید ابو الاعلیٰ مودودی رحمہ اللہ(1979ء)لکھتے ہیں: ’’قرآن کا سرسری مطالعہ بھی اگر کسی شخص نے کیا ہو تو یہ محسوس کئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ اس میں بکثرت باتیں ایسے ہیں جنہیں ایک عربی دان آدمی محض قرآن کے الفاظ پڑھ کر یہ نہیں جان سکتا کہ ان کا حقیقی مُدعا کیا ہے او ران میں جو حکم بیان کیا گیا ہے اس پر کیسے عمل کیا جائے؟ مثال کے طور پر لفظ صلوٰۃ ہی کو لے لیجئے۔قرآنِ مجید میں ایمان کے بعد اگر کسی عمل پر سب سے زیادہ زور دیا گیا ہے تووہ صلوٰۃ ہے لیکن محض عربی لغت کی مدد سے کوئی شخص اس کامفہوم تک متعیّن نہیں کرسکتا۔قرآن میں اس کا ذکر بار بار دیکھ کر زیادہ سے زیادہ جو کچھ وہ سمجھ سکتا ہے وہ یہ ہے کہ عربی زبان کے اس لفظ کو کسی خاص اصطلاحی معنیٰ میں استعمال کیا گیا ہے اور اس سے مراد غالباً کوئی خاص فعل ہے جسے انجام دینے کا اہلِ ایمان سے مطالبہ کیا جارہا ہے،لیکن صرف قرآن پڑھ کر کوئی عربی دان یہ طے نہیں کرسکتا کہ وہ خاص فعل کیا ہے اور کس طرح اسے ادا کیا جائے؟ سوال یہ ہے کہ اگر قرآن بھیجنے والے نے اپنی طرف سے ایک معلّم کو مقرر کرکے اپنی اس اصطلاح کا مفہوم اسے ٹھیک ٹھیک نہ بتایا ہوتا اور صلوٰۃ کے حکم کی تعمیل کا طریقہ پوری وضاحت کےساتھ اسے نہ سکھا دیا ہوتا تو کیا صرف قرآن کو پڑھ کر دُنیامیں کوئی دو مسلمان بھی ایسے ہوسکتے ہیں جو حکم صلوٰۃ پرعمل کرنے کی ایک شکل پر متّفق ہوجاتے؟ ‘‘[4] اسی بحث کے ضمن محدث روپڑی رحمہ اللہ(1962ء)فرماتے ہیں: ’’قرآنِ مجید کے سمجھنے کیلئے صرف لغت کافی نہیں بلکہ حدیثِ نبوی یا تفسیر صحابہ کی بھی ضرورت ہے،کیونکہ لغت میں لفظ کے
[1] أصول في التّفسیر:ص32، 31 [2] سورة التّوبة، 9:103 [3] أصول في التّفسیر:ص32 [4] تفہیم القرآن:6‎ ‎؍ 170