کتاب: حمید الدین فراہی رحمہ اللہ اور جمہور کےاصول تفسیر تحقیقی و تقابلی مطالعہ - صفحہ 297
ہے کہ اسے گوندھنے کے بعد خمیر اٹھانے کیلئے ڈھانپ کر رکھ دیا جاتاہے۔دخل في خمار النّاس کہ لوگوں کے ہجوم میں داخل ہوکر چھپ گیا۔الخمر شراب،نشہ،کیوں کہ وہ عقل کو ڈھانپ لیتی ہے۔بعض لوگوں کے نزدیک ہر نشہ آور چیز پرخمر کالفظ بولاجاتاہے اور بعض کے نزدیک صرف اسی چیز کو خمر کہاجاتا ہے جو انگور یاکھجور سے بنائی گئی ہو۔کیونکہ ایک روایت میں ہے کہ خمر(شراب حرام)صرف وہی ہے جو ان دو درختوں یعنی انگور یاکھجور سے بنائی گئی ہے۔بعض کہتے ہیں کہ ’خمر‘ صرف اسی کو کہتے ہیں جو پکائی نہ گئی ہو۔پھر اس بارےمیں فقہاء مختلف ہیں کہ کس قدر پکانے کے بعد اس پرخمر کا اطلاق نہیں ہوتا۔[1] حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے اس بات پرکہ ہرنشہ آور چیز خمر ہے،اہل مدینہ،تمام حجازیوں او رسب محدثین کا اجماع نقل کیا ہے،فرماتے ہیں: "كل مسكر خمر وحكمه حكم ما اتّخذ من العنب،ومن الحجّة لهم أنّ القرآن لما نزل بتحريم الخمر فهم الصّحابة وهم أهل اللّسان أنّ كلّ شیء خمرا يدخل في النهي فأرا قوا المتّخذ من التّمر والرّطب ولم يخصّوا ذلك بالمتّخذ من العنب،وعلى تقدير التّسليم فإذا ثبت التّسليم فإذا تسمية كل مسكر خمرا كان حقيقة شرعية وهي مقدمة على الحقيقة اللّغوية." [2] کہ ہر نشہ آور چیزحرام ہے اور اس کا حکم بھی وہی ہے جو انگور سے حاصل کردہ خمر کا ہوتا ہے۔انکی دلیل یہ ہے کہ جب قرآن خمر کی حرمت بیان کرنے کیلئے نازل ہوا تو صحابہ جو اہل زبان تھے وہ سمجھ گئے کہ ہر وہ چیز جس کو خمر کہاجاتا ہے اس ممانعت میں داخل ہے تو انہوں نے خشک اور تر کھجور سے کشید کردہ خمر کو بھی بہا دیا تھا۔انہوں نے انگور سے کشید کردہ خمر کو خاص نہیں کیاتھا۔اگر تسلیم بھی کرلیا جائے تو پھر بھی جب یہ ثابت ہوگیا ہے کہ ہر نشہ آور چیز کو شرعاً خمرکہا جاتا ہے تو یہ معنیٰ لغوی حقیقت پرمقدّم ہوگا۔ ابن عبدالبر رحمہ اللہ(463ھ)کہتے ہیں: "إنّ الحکم إنّما یتعلّق بالاسم الشّرعي دون اللّغوي. "[3] کہ حکم شرعی اسم سے متعلّق ہوتا ہے نہ کہ لغوی اسم سے۔ لغوی اور شرعی معنیٰ میں اختلاف کے مسئلے میں محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ(2001ء)لکھتے ہیں: ’’اگر شرعی اور لغوی معنیٰ میں اختلاف ہوجائے تو اس مفہوم کو لیا جائے گا جس کا شرعی معنی تقاضا کرتا ہے کیونکہ قرآن شریعت بیان کرنے کیلئے نازل ہواہے نہ کہ لغت کے بیان کیلئے۔ہاں اگر کوئی ایسی دلیل موجود ہو جس سے لغوی معنیٰ راجح قرار پاتا ہو تو لغوی معنی کو لیا جائے گا،شرعی معنیٰ کومقدّم ماننے کی مثال اللہ عزو جل کا منافقین کے بارے میں یہ فرمان ہے:﴿وَلَا تُصَلِّ عَلَى أَحَدٍ مِنْهُمْ مَاتَ أَبَدً﴾کہ ان میں سے کوئی مرجائے تو کبھی اس(کے جنازے)پر نماز نہ پڑھنا۔لغت میں ’صلاۃ‘ سے مراد دُعا ہے اور شرعاً یہاں میت پر دُعا کیلئے مخصوص انداز سےکھڑے ہونا ہے،یعنی نماز جنازہ پڑھنا مراد ہے تو یہاں شرعی معنیٰ مقدّم ہوگا کیونکہ
[1] مُفردات ألفاظِ القرآن:1 ؍ 324 [2] فتح الباري:10 ؍ 48 [3] أیضًا:10 ؍ 49