کتاب: حمید الدین فراہی رحمہ اللہ اور جمہور کےاصول تفسیر تحقیقی و تقابلی مطالعہ - صفحہ 294
خصوصاً قرآنِ کریم میں جس قدر آیاتِ احکام ہیں،ان کی تفسیر وتوضیح میں سنّت سے بے اعتنائی ناممکن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اُمت کی واضح اکثریت کی رائے میں سنّت کو لغت پر ترجیح حاصل ہو گی۔کیونکہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کسی لفظ کا مصداق متعین فرما دیں تو پھر دیگر تمام ذرائع بشمول لغوی معنی کے ضرورت باقی نہیں رہتی۔اس لیے امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "ومما ينبغي أن يُعلم أنّ الألفاظ الموجودة في القرآن والحديث إذا عرف تفسيرها وما أريد بها من جهة النّبي صلی اللّٰه علیہ وسلم لم يحتج في ذلك إلى الاستدلال بأقوال أهل اللّغة ولا غيرهم. " [1] کہ جس چیز کا جاننا ضروری ہے وہ یہ ہے کہ قرآن و حدیث میں موجو دالفاظ کا مفہوم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے معلوم ہوجائے تو اس میں اہلِ لغت وغیرہم کے اقوال سے استدلال کی حاجت نہیں رہتی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شریعت ان الفاظ کو کبھی مقید استعما ل کرتی ہے،کبھی ان میں عموم او رکبھی تخصیص پیدا کرتی ہے۔امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں: "والتّحقيق أنّ الشّارع لم ينقلها ولم يغيّرها ولكن استعملها مقيدةً لا مطلقةً كما يستعمل نظائرها كقوله تعالى:﴿وَلِلّٰهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِفذكر حجًّا خاصًّا وهو حجّ البيت،وكذلك قوله:﴿فَمَنْ حَجَّ الْبَيْتَ أَوِ اعْتَمَرَفلم يكن لفظ الحجّ متناولًا لكلّ قصد،بل لقصد مخصوص دلّ عليه اللفظ نفسه من غير تغيير اللّغة ... ومعلوم أنّ ذلك الحج المخصوص دلّت عليه الإضافة فكذلك الحجّ المخصوص الّذي أمر اللّٰه به دلّت عليه الإضافة أو التّعريف باللّام،فإذا قيل:"الحج فرض عليك" كانت لام العهد تبين أنه حجّ البيت. " [2] كہ شارع نے لغت میں استعمال ہونے والے الفاظ کو مطلق نہیں بلکہ مقید استعمال کیا ہے،جیسے اللہ عزو جل کا فرمان:﴿وَلِلّٰهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ﴾ہے اس آیت میں خاص حج کا ذکر کیا او روہ بیت اللہ کا حج ہے۔اسی طرح فرمان الٰہی ہے:﴿فَمَنْ حَجَّ الْبَيْتَ أَوِ اعْتَمَرَ﴾تو یہاں لفظِ حج ہر قصد اور ارادے کو شامل نہیں ہے بلکہ یہ خاص قسم کا قصد ہے،لغت میں بغیر کسی تبدیلی کے لفظ خود ہی اس پردلالت کرتا ہے ...مخصوص حج جس کا اللہ عزو جل نے حکم دیا ہے اس کو مضاف یا معرف باللّام کے طور پر ذکر کیا گیا۔اگر یہ جملہ الحجّ فرض عليك(حج آپ پر فرض ہے)بولا جائے تو لفظ حج پر ال میں لام جو عہد کا ہے واضح کرتا ہے کہ حج سے مراد حج بیت اللہ ہے۔ لغوی اور شرعی معنیٰ متعارِض ہو تو عموماً شرعی معنی کو ہی ترجیح حاصل ہوتی ہے کیونکہ شریعت لغوی معانی یا مفاہیم کیلئے نازل نہیں ہوئی،البتہ اگر شرعی معنیٰ متعذر ہو تو لغویٰ معنی بھی لیا جاتا ہے۔لیکن لغوی معنی مراد لینے کیلئے کوئی واضح قرینہ یا دلیل موجود ہونا
[1] مجموع فتاوى ابن تيمية:7 ؍ 286 [2] مجموع فتاوى ابن تيمية:7 ؍ 298، 299