کتاب: حمید الدین فراہی رحمہ اللہ اور جمہور کےاصول تفسیر تحقیقی و تقابلی مطالعہ - صفحہ 292
ایک اور جگہ فرماتے ہیں: والقرآن نزل بلغة قريش الموجودة في القرآن،فإنها تفسير بلغته المعروفة فيه إذ وُجدت لا يُعدَل عن لغته المعروفة مع وجودها وإنما يحتاج إلى غير لغته في لفظ لم يوجد له نظير في القرآن. " [1] کہ قرآن قریش کی زبان میں نازل ہوا جو قرآن میں موجود ہے۔اس کی اسی معروف لغت کے مطابق تفسیر کرنا ضروری ہے۔اگر کوئی لفظ اس میں موجود پایا جائے تو اس کی معروف لغت سے انحراف کرنا درست نہیں۔دوسری لغات کی طرف تب رجوع کیا جائے گا،جب اس کی نظیر قرآن میں نہ ملتی ہو۔ بایں ہمہ قواعدِ اعراب وبلاغت سے اس کے معنی ترکیبی پر غور کر لیا جائے اور سیاق وسباق پر نظر ڈالی جائے اور پھر سیاقِ کلام سے معنیٰ متعین کرنے کی کوشش کی جائے۔ اس ساری تگ ودو کے بعد یہ تفسیر بالرائے ہوگی،یہ معانی اجتہادی ہوں گے اور ان میں اختلاف کی گنجائش ہے،کیونکہ ایک ہی کلمہ لغتِ عرب میں متعدّد معانی کیلئے استعمال ہوتا ہے۔جیساکہ بعد میں آنے والوں کو متقدّمین سے کئی مواقع پر اختلاف ہوا۔مولانا فراہی رحمہ اللہ ایک جگہ بعض متقدّمین کی لغت عربی سے تفسیر پر اعتراض کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’اگر اشارات فہمِ حقیقت کیلئے کافی ہیں تو 'یدین' سے اعوان و انصار کومراد لینا نہایت واضح بات ہے،کیونکہ عرب اعوان وانصار کو ’ید‘ کہتے ہیں۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:((وَهُمْ يَدٌ عَلَىٰ مَنْ سِوَاهُمْ))کہ وہ غیروں کے بالمقابل ایک دوسرے کے ساتھی ہیں۔باقی رہا اس سےعلم وعمل کے ہاتھ مراد لینا،جیسا کہ بعض لوگوں نے کہا ہے،تو میرے نزدیک یہ بالکل لغت کے خلاف اور محض تفسیر بالرّائے ہے۔‘‘[2] 7۔ مندرجہ بالا طریق سے جو بھی متعین ہو اس پر نظر ثانی کی جائے کہ کیا یہ تفسیر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت وسیرت کے بھی مطابق ہے؟ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال وافعال اور تفسیر صحابہ کے منافی تو نہیں ہے،کونی اور اجتماعی قواعد اور تاریخی حقائق سے کس حد تک مطابقت رکھتی ہے؟ یہ تمام غور وفکر اور مساعی اس لئے ضروری ہیں کہ کتبِ لغت بہت کتبِ لغت ہیں،ان سے الفاظ کا معنی حل ہی مل سکتا ہے،وہ قرآنی تصورات کی وضاحت سے بہرحال قاصر ہیں۔مثلاً کوئی شخص قرآن کے اصطلاحی الفاظ کی تشریح لغت سے تلاش کرنے کی کوشش کرے تو یہ اس کا دماغی خلل ہوگا۔اور یہ حقیقت ہے کہ جن لوگوں نے محض لغت کے سہارے تفسیر کی کوشش کی ہے،انہوں نے قرآن کا مفہوم متعین کرنے میں ٹھوکریں کھائی ہیں۔اس کا پہلا نمونہ ابو عبیدہ(208ھ)کی مجاز القرآن ہے۔دار اصل علمائے بدعت نے اپنے نظریات کی ترویج کیلئے اس طریق تفسیر کو رواج دیا ہے ورنہ یہ کوئی ایسا مرجع نہیں جس کی مدد سے ہم آیت کا مفہوم متعین کر سکیں۔ہاں صرف مفردات کی وضاحت کے سلسلہ میں کتبِ لغت کچھ نہ کچھ کام دے سکتی ہیں۔چنانچہ ابن جریر طبری رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
[1] مجموع فتاوى ابن تيمية:15 ؍ 88 [2] تفسير نظام القرآن:ص590