کتاب: حمید الدین فراہی رحمہ اللہ اور جمہور کےاصول تفسیر تحقیقی و تقابلی مطالعہ - صفحہ 291
لغت سے استدلال کا دائرہ کار اگر کسی آیت کے مفہوم پر کتاب وسنت اور اقوال صحابہ سے روشنی نہ پڑتی ہو اور تابعین بھی اس کی تاویل میں مختلف ہوں تو پھر لغت عرب اور محاورات کی طرف رجوع ہوگا،کیونکہ قرآن فہمی کے سلسلہ میں خود صحابہ کرام اس اصل سے استفادہ کرتے رہے ہیں۔سیدنا ابن عباس فرماتے ہیں: "الشّعر ديوان العرب،فإذا خفي علينا الحرف من القرآن الذي أنزله اللّٰه بلغة العرب رجعنا إلى ديوانها فالتمسنا معرفة ذلك منه. "[1] کہ شعر اہل عرب کا دیوان ہے،جب ہم پر قرآنِ کریم،جسے اللہ عزو جل نےعربی زبان میں اتارا ہے،کا کوئی لفظ مخفی ہو جائے تو اس دیوان کی طرف رجوع کریں گے اور اس لفظ کا معنیٰ وہاں سے تلاش کریں گے۔ لیکن لغتِ عربی سے استفادہ ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔صرف وہی شخص اس کو بروئے کار لا سکتا ہے جو عربی زبان میں خصوصی ذوق رکھتا ہو۔دواوین عرب اسے مستحضر ہوں اور عربی زبان کے اسالیب سے بدرجہ اتم واقفیت رکھتا ہو۔محض لغات بینی سے کام نہیں چل سکتا،کیونکہ معاجم وقوامیس میں علمائے لغت نے جن اقوال کو جمع کیا ہے،اس میں احتیاط کو ملحوظ نہیں رکھا۔اور بلا اسناد مختلف اقوال کو جمع کر دیا ہے۔علمائے ادب جانتے ہیں کہ اشعار کی نسبت میں اختلاط واختلاف کو بے حد دخل ہے اور شاذ ونادر ہی کوئی ایسی روایت ہوتی ہے جس پر اعتماد ہو سکے۔پھر محاوراتِ عرب کے بیان میں بھی باہم اختلاف ہے اور علمائے لغت نے تشریحات میں عمومی لغت ومحاورہ کو سامنے رکھا ہے۔خصوصیت کے ساتھ الفاظِ قرآن کی تشریح وتوضیح ان کے پیش نظر نہیں ہوتی۔ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ لغت قرآن ان کے سامنے ہے اور اس کو ملحوظ رکھتے ہوئے انہوں نے تشریحات کی ہیں تو پھر بھی احتیاط کی ضرورت ہے،کیونکہ علمائے لغت بھی مختلف مکاتبِ فکر سے تعلّق رکھتے تھے اور ہر ایک مؤلف نے اپنے نقطۂ نظر کے مطابق محاورات کو ڈھالنے کی کوشش کی ہے اور عربی زبان میں یہ لچک بدرجۂ اتم موجود ہے،لہٰذا لغت ومحاورہ سے استفادہ کیلئے چند اُمور کا پیش نظر رہنا نہایت ضروری ہے: 6۔ لغت کا تتبع کرتے وقت الفاظِ مفردہ کے صرف اُن معانی کو پیش نظر رکھا جائے جو زمانۂ نزول کے وقت سمجھے جاتے تھے اور یہ جبھی ممکن ہے کہ عام لغت سے صرفِ نظر کر کے اولاً لغتِ قرآن وسنت کو سامنے رکھا جائے،پھر عام لغت پر نظر ڈالی جائے۔چنانچہ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں: "ويرجع في ذلك إلى لغة القرآن أو السّنة أو عموم لغة العرب. " [2] کہ اس کے لئے سب سے پہلے لغتِ قرآن وسنت یا عام اہلِ عرب کی لغت کی طرف رجوع کیا جائے گا۔
[1] الإتقان:1 ؍ 347 [2] مقدّمة في أصول التفسير:ص35 ؛ مجموع فتاوى ابن تيمية:13 ؍ 370