کتاب: حمید الدین فراہی رحمہ اللہ اور جمہور کےاصول تفسیر تحقیقی و تقابلی مطالعہ - صفحہ 289
5۔ عام مفسرین کے نقطۂ نظر سے ہٹ کر لفظ ’التّین‘ اور ’الزّیتون‘ سے مولانا فراہی رحمہ اللہ نے دو مقام مراد لئے ہیں،اس ضمن میں مولانا نے بڑی تفصیلی بحث کی ہے۔لیکن اس سے قطع نظر کرتے ہوئے،یہاں صرف چند ضروری اُمور پر اکتفاء کیا جائے گا۔مولانا فرماتے ہیں کہ ’التّین‘ایک خاص مقام کا نام ہے۔عرب اسے اسی نام سے جانتے تھے۔عربوں کے یہاں یہ قاعدہ عام ہے کہ جو چیز جہاں کثرت سے پیدا ہوتی ہے،اسے اسی نام سے منسوب کردیتے ہیں۔چونکہ یہاں انجیر کی پیداوار کثرت سے تھی اس لئے اسی سے منسوب کردیا۔مثلاً الغضى،الشّجرةاور النّخلة وغیرہ۔یہ لفظ کے اصل معنی سے نکل جانا نہیں ہے،بلکہ جس طرح مظروف بول کر ظرف مراد لیتے ہیں،اسی طرح لفظ کے مختلف پہلوؤں میں سے کسی ایک پہلو کو خاص کرتے ہیں۔
لفظ ’التّین‘ کو مشہور شاعر نابغہ ذبیانی نے اپنے اشعار میں استعمال کرکے اس سے شمال کا ایک پہاڑ مراد لیا ہے:
وَهَّبَتِ الرّیحُ مِنْ تِلْقَاءِ ذِي أُرُلٍ تُزْجِي مَعَ اللَّیْلِ مِن صُرَّادِهَا صِرَمَا
صُهْبَ الظَّلَالِ أَتَيْنَ التّينَ عَنْ عُرُضٍ يُزْجِينَ غَيْ۔مًا قليلًا مَاؤُه شَبِمَا[1]
کہ ہوا جبل اُرل کی جانب سے رواں ہوئی،وہ رات کے وقت ان بادل کے ٹکڑوں کو لے کر چلتی ہے،جن میں پانی نہیں ہے۔ہوائیں سرخ رنگ کے بادلوں کو لے کر ’تین‘ کے بے پناہ طول و عرض سے گزرتی ہیں،ہلکے بادلوں کو ہنکائے پھرتی ہیں جن کا پانی نہایت ٹھنڈا ہے۔
اس شعر میں نابغہ شمالی ٹھنڈی ہواؤں کا ذکر کرتا ہے جوموسم سرما کے ہلکے بادلوں کو جبل تین کے پاس ہنکائی پھرتی ہے،جن سے ٹھنڈک بڑھتی جاتی ہے،عرب شمالی ہواؤں کے چلنے کا اکثر ذکر کرتے ہیں اور کوہ جودل تو سردی اور ٹھنڈک کا خاص مرکز ہے۔[2]
[1] دیوان النابغة الذّبياني:ص76 ؛ دواوين الشّعر العربي على مرّ العصور:9 ؍ 127 ؛ أساسُ البلاغة:ص354
[2] تفسير نظام القرآن:ص344 - 346