کتاب: حمید الدین فراہی رحمہ اللہ اور جمہور کےاصول تفسیر تحقیقی و تقابلی مطالعہ - صفحہ 288
مناسبت ظاہر ہے۔قرآن کریم میں متعدّد مواقع پر دونوں کاذکر ساتھ ساتھ ہوا ہے۔دوسری وجہ یہ بتاتے ہیں کہ مقسم بہ کی مناسبت اسی مفہوم کی طرف اشارہ کرتی ہے،اور﴿ذَاتِ الْحُبُكِ﴾کی صفت بھی اسی مفہوم کو ترجیح دینے کے حق میں ہے،اس کی تفصیل یہ ہے کہ ’حَبَكَ‘ کے معنی باندھنے اور گرہ لگانے کے ہیں۔یہیں سے یہ اس مضبوطی اور استواری کیلئے استعمال ہونے لگا جو کسی چیز کی بناوٹ میں پیدا کی جائے۔اسی سے ’حباك‘ ہے جس کی جمع ’حبك‘آتی ہے۔’حباك‘ ان دھاریوں،شکنوں اور لہروں کو کہتے ہیں جو کسی گفش اور مضبوط بناوٹ کے کپڑے میں نمایاں کی گئی ہوں۔زہیر بن ابی سلمہ نے اپنے شعر میں اس چشمے کا نقشہ کھینچا ہے جس پر گزرنے والی ہواؤں نے اس میں لہریں پیدا کردی ہیں:
مُكَلَّلٌ بِأُصُولِ النَّبْتِ تَنْسِجُهُ رِيحٌ خَرِيقٌ لِضَاحِي مَائِهِ حُبُكُ[1]
نباتات کا نچلا حصہ اسکا احاطہ کئے ہوئے ہے۔جب تند و تیز ہوا اسپر گزرتی ہے تو اسکی اوپری سطح پر لہریں نمودار ہوجاتی ہیں۔[2]
3۔ آیتِ کریمہ﴿مِّثْلَ مَا أَنَّكُمْ تَنْطِقُونَ﴾[3]پر روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’’نطق‘ نفس کے اندر سب سے راسخ چیز ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ انسان کی فطرت کے اندر داخل اور اس کے خواص میں ہے۔انسان کی تعریف ہی حیوانِ ناطق سے کی گئی ہے۔اس حقیقت سے دورِجاہلیت میں عرب بھی اچھی طرح واقف تھے۔
مرقش اکبر کا شعر اس سلسلہ میں ملاحظہ ہو:
هَلْ بِالدّیَارِ أَن تُجِیبَ صَمَمْ لَوْ أَنّ حَیًّا نَاطِقًا کَلَّمْ[4]
کہ کیا کھنڈرات بہادر شخص(کی باتوں کا)جواب دینگے؟ کاش کے یہ اجڑے ہوئے محلّات بات کرتے اور گفتگو کرتے۔‘‘[5]
4۔ آیتِ کریمہ﴿أَوْلَى لَكَ فَأَوْلَى()ثُمَّ أَوْلَى لَكَ فَأَوْلَى﴾[6] میں لفظ﴿أَوْلَى﴾پر روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جس طرح ویل کالفظ جھڑکی اور غصہ کیلئے آتا ہے اسی طرح﴿أَوْلَى﴾کا لفظ اظہار حسرت کے لئے آتا ہے۔خنساء(44ھ)کا شعر ہے:
هَمَمْتُ بِنَفْسِيَ کُلَّ الْهُمُومِ فَأَوْلَىٰ لِنَفْسِيَ أَوْلَىٰ لَهَا[7]
کہ جب پورے طور سے میں نے اپنے آپ کا جائزہ لیا تو اپنی ذات پر کفِ افسوس ملتا رہا۔[8]
[1] ديوان زهير بن أبي سلمى:ص70 ؛ الزاهر في معاني كلمات الناس:1 ؍ 298
[2] تفسير نظام القرآن:ص123، 124
[3] سورة الذّاريات، 51:23
[4] المفضّليات:ص137 ؛ تاج العروس:17 ؍ 221
[5] تفسير نظام القرآن:ص138، 139
[6] سورة القيامة، 75:34، 35
[7] الكامل في اللّغة والأدب:4 ؍ 43 ؛ الأغاني:9 ؍ 114
[8] تفسير نظام القرآن:ص216