کتاب: حمید الدین فراہی رحمہ اللہ اور جمہور کےاصول تفسیر تحقیقی و تقابلی مطالعہ - صفحہ 235
باعتبار إفادته المعنی أي الغرض المصوغ له الکلام بالترکیب." [1] کہ بلاغت لفظ کی صفت ہے،مگر محض لفظ اور آواز ہونے کے لحاظ سے صفت نہیں بلکہ اس لحاظ سے کہ لفظ معنی مراد کو ادا کرے۔یعنی اگر لفظ معنی مراد کو ادا نہ کرے تو بلاغت کے متصف نہیں ہو سکتا۔ کمالِ فصاحت اسی میں ہے کہ معنی مراد کو ایسی سلاست اور روانگی سے مقتضائے حال کے مطابق موافق ادا کیا جائے کہ الفاظ منہ سے نکلتے ہی معنی مراد دل میں نقش ہو جائیں۔جس کلام کا معنی مراد ہی متعیّن نہ ہو تو ایسی مشتبہ اور مبہم کلام کو بھی کون فصیح و بلیغ کہہ سکتا ہے؟ جس شخص کا یہ خیال ہو کہ قرآن پاک کا معنی مراد ہی متعین نہیں ہوتا اور جو آتا ہے اس سے نیا مطلب سمجھتا ہے اوراس کے اصلی معنی سے ایک شخص نہیں دو نہیں بلکہ سینکڑوں حاضریں وحی غفلت کرجاتے ہیں،ایسا شخص در اصل قرآنِ پاک کی فصاحت وبلاغت پر ایمان نہیں رکھتا۔ قرآن کریم کوئی ایسی مشکل چیز نہیں ہے کہ اس کا سادہ اور ظاہری مطلب بھی کسی کو سمجھ میں نہ آئے بلکہ یہ تو فصیح عربی زبان میں ہیں لہٰذا جو شخص عربی زبان سیکھ لے تو وہ قرآن وحدیث کو بخوبی سمجھ سکتا ہے۔ارشاد باری تعالی ہے:﴿وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِنْ مُدَّكِرٍ[2] خصوصیاتِ الفاظ سے تعلّق رکھنے والے معانی و مفاہیم کوسمجھنا اگرچہ ایک مشکل اَمر ہے لیکن کلام کا ظاہری معنی اور غرضِ متکلّم سمجھنا تو بلا شبہ،مشکل کام نہیں۔اگر یہ بھی کسی کو سمجھ میں نہ آسکیں تو قرآن و حدیث کو فصیح و بلیغ کہنا چہ معنی دارد؟ فرمانِ باری ہے: ﴿إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ قُرْآنًا عَرَبِيًّا لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ[3] جو حضرات یہ سمجھتے ہیں کہ ہزارہا صحابہ کرام،جو مجلسِ نبوی میں بیٹھتے اور براہ راست پیغمبر گرامی صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے دامن کو انوارِ شریعت سے بھرتے تھے اور جن کی ہدایت ودرایت پر پوری اُمت متفق ہے،کو ایک آیت کی تفسیر سمجھ نہ آئی ہو اور وہ اس میں غلطی کرگئے ہوں لیکن ہم نے اس کو صحیح مفہوم سمجھا ہو۔گویا ان کے نزدیک قرآن کریم کا ظاہری مفہوم بھی اتنا مشکل ہے کہ ایک دو امام نہیں بلکہ ہزاروں ائمہ اس سے غفلت کرجاتے ہیں پھر بایں ہمہ قرآن کریم کی فصاحت و بلاغت پر بھی ایمان کادعوی کرتے ہیں۔ فلہٰذا یہ مانےبغیر چارہ نہیں کہ صحابہ کرام مکمل طور پر قر آن حکیم کو سمجھتے تھے،اس لیے کہ قرآن مقدس اعلیٰ درجے کا بلیغ کلام ہے۔چنانچہ سیدنا عبداللہ بن مسعود کا مشہور قول ہے: "والذي لا إله غيره،ما نزلت آية في كتاب اللّٰه إلا وأنا أعلم فيمَ نزلت؟ وأينَ أنزلت؟ ولو أعلم مكانَ أحدٍ أعلمَ بكتاب اللّٰه مِنّى تنالُه المطايا لأتيته."[4]
[1] مختصر المعاني:ص17 [2] سورة القمر، 54:17 [3] سورة یوسف، 12:2 [4] جامع البيان:1 ؍ 80