کتاب: حمید الدین فراہی رحمہ اللہ اور جمہور کےاصول تفسیر تحقیقی و تقابلی مطالعہ - صفحہ 234
مقتضیٰ حال مختلف ہے کیونکہ مواضع کلام مختلف ہیں۔مثلاً بعض جگہ تنکیر مناسب ہے اور بعض جگہ تعریف،بعض جگہ اطلاق اور بعض جگہ تقیید،بعض جگہ لفظ کو مقدم کرنا اور بعض جگہ مؤخر کرنا،بعض جگہ ذکر کرنا،بعض جگہ حذف کرنا اور بعض جگہ کلام کو مختصر کرنا اور بعض جگہ تطویل،بعض جگہ عطف کرنا اور بعض جگہ ترک عطف یعنی جیسا محل ہے ویسی کلام کی جائے تو اچھی ہے ورنہ بُری۔مثلاً اگر اختصار کا محل ہے تو کلام کو مختصر کرنا چاہئے اگر طول کا محل ہے تو طول دینا چاہئے اسی طرح اگر ذکی سے ہم کلام ہو تو اعتبارات لطیفہ مناسب ہیں ورنہ عام اور موٹی بات کرے۔
الغرض مذکورہ بالا باتوں کی جس قدر رعایت کی جائے کلام اسی قدر بلیغ ہو گی اگر مذکورہ بالا باتوں کی رعایت نہ کی جائے تو وہ کلام بلیغ نہیں ہو سکتی۔اس سے ظاہر ہوا کہ مخاطب کی ذکاوت وغباوت کا لحاظ رکھنا،مفہوم بلاغت میں داخل ہے۔پس جو شخص ذکی کے ساتھ غبی کا خطاب کرے یا غبی کے ساتھ ذکی کا خطاب کرے وہ بلیغ نہیں ہو سکتا۔اسی واسطے ہم کہتے ہیں:یہ نہیں ہو سکتا کہ ہزارہا صحابہ حاضرین مجلس کسی آیت کے اصلی مطلب سے غفلت کرجائیں اور کسی کی بھی سمجھ میں صحیح مطلب نہ آئے کیونکہ اوّل مخاطب وہی تھے اور انہیں کی خاطر اللہ عزو جل نے قرآنِ مجید عربی زبان میں اتارا تھا۔چنانچہ اللہ عزو جل بالخصوص ان کو خطاب کرکے بطور احسان فرماتے ہیں:﴿إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ قُرْآنًا عَرَبِيًّا لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ﴾[1] کہ تحقیق ہم نے اس قرآن کو عربی میں نازل کیا تاکہ تم سمجھو۔تو جو لوگ اس کے خلاف(برعکس)اعتقاد رکھتے ہیں وہ قرآن پاک کی فصاحت وبلاغت پر ایمان نہیں لائے۔
اسی لئے علمائے مفسرین نے تفسیر کا طریقہ یہ مقرر کیا کہ جب قرآن پاک کی تفسیر قرآن وحدیث میں نہ ملے تو اقوالِ صحابہ سے کرنی چاہئے۔
اس تفصيل سے یہ بات واضح اور قرین انصاف معلوم ہوتی ہے کہ قرآن کی جس تفسیر کو حاضرینِ وحی نے(جن کے سامنے قرآن اُترا اور جنہوں نے احادیثِ نبویہ اپنے کانوں سے سنیں)سیاق وسباق اور محاورۂ عرب کے خلاف نہیں گردانا،ہم کس طرح خلاف گردان سکتے ہیں۔جو شخص کسی قضیہ میں حاضر ہو،جیسے وہ حقیقتِ حال کو سمجھتا ہے،غائب نہیں سمجھ سکتا۔مشہور ہے:الشاهد يرى ما لا يراه الغائب۔حدیث میں ہے:((لَیْسَ الْخَبَرُ کَالْمُعَایَنَةِ))[2] اس کے ساتھ وہ اصل عرب تھے،بات کی گہرائی تک پہنچ جاتے تھے۔اس زمانے کے محاورات گو آج تک کتابوں میں جمع ہیں،مگر وہ ان کو خوب جانتے تھے۔ہمیں اپنی زبان کے محاورات اور بول چال کی طرف خیال کرنا چاہئے کہ ایک دوسرے کے ما فی الضمیر پر کس طرح آسانی سے اطلاع پاتے ہیں؟ اسی طرح وہ قرآن کریم کے مضامین کو آسانی سے سمجھتے تھے کیونکہ قرآن پاک فصاحت وبلاغت کے اعلیٰ ترین معیار پر اُترا ہے۔
"فالبلاغة صفة راجعة إلى اللفظ يعني أنه یقال:کلام بلیغ لكن لا من حیث أنه لفظ وصوت،بل
[1] سورة يوسف، 12:2
[2] مسند أحمد:كتاب ومن مسند بني هاشم، باب بداية مسند عبد اللّٰه بن عباس، 1845