کتاب: حمید الدین فراہی رحمہ اللہ اور جمہور کےاصول تفسیر تحقیقی و تقابلی مطالعہ - صفحہ 232
مقامِ قصر اپنے مخالف مقام سے،مقامِ فصل مقام وصل سے،مقامِ ایجاز مقامِ اطناب سے مختلف ہوتا ہے۔،اس طرح ذکی اور غبی سے خطاب مختلف ہوتا ہے،ہر کلمے کا معنیٰ دوسرے کےساتھ مختلف ہوجاتا ہے۔اور کلام کا مرتبہ میں اچھا ہونا مطابقت اور عدم مطابقت کی وجہ سے ہے۔
محمدنور الحق لکھتے ہیں:
’’کلام بلیغ وہ ہے جو فصیح ہونے کے ساتھ مقتضائےحال کے بھی مطابق ہو۔‘‘[1]
آگے چل کرمقتضائے حال کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’کسی واقعہ کی خبر دینے سے پیشتر مخاطب اس واقعہ سے خالی الذہن ہوگا یا اس واقعہ کے نہ ہونے میں اس کو شک ہوگا یا
سرے سے واقعہ کامنکر ہوگا۔ان سہ اُمور کو حال کہا جاتاہے۔ہر حال کیلئے ایک خاص طرزِ خطاب مقرر ہے اس کومقتضائے حال کہا جاتا ہے۔‘‘[2]
مولانا فراہی رحمہ اللہ نے بلاغت کی تعریف میں رقمطراز ہیں:
’’کلام جو انسان اپنی زبان سے ادا کرتا ہے اس کے سامنے کبھی جذبات ہوتے ہیں،کبھی عقل اور کبھی روح اور ہر ایک کے لئے الگ الگ اسٹائل اور اسلوب ہوتا ہے۔جذبات کو ابھارنے کی زبان کچھ اور ہوتی ہے،ذہنوں کو متاثر کرنے اور اپنی بات منوانے کی زبان دوسری ہوتی ہے،اور اسی طریقہ سے روح اور وجدان کی زبان واسٹائل کچھ اور ہوتا ہے۔اسی میں شاعر یا خطیب کی ذہانت اور مہارت نظر آتی ہے۔کیونکہ بلاغت کی تعریف یہ ہے کہ جو بات کہی جائے وہ مقتضائے حال کے مطابق ہو۔‘‘[3]
یہ ان جیسی دیگر لغت وبلاغت کی کتب میں بلاغت کی تعریف جو سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ وہ فصیح ہو اور مقتضائے حال کے مطابق ہو۔مقتضائے حال کا مطلب یہ ہے کہ مخاطب کی صلاحیت کے مطابق ایسی بات کی جائے جسے وہ بآسانی سمجھ لے اور اگرمخاطب کو بات سمجھ نہیں آتی تو اس کا یہ مطلب ہے کہ کلام بلیغ نہیں ہے۔کوئی بھی کلام بلیغ تب ہی کہلائے گا جب اس کا مخاطب اسے بآسانی سمجھ لے۔مثال کے طور خالی الذہن کیلئے آپ کہیں گے:زیدآیا۔ایسا شخص جومترّدد ہے،اسے کہا جائے گا:یقیناً زید آیا۔اور جو شخص انکاری ہے اسے مزید تاکید پیدا کرتے ہوئے کہا جائے گا:اللہ کی قسم!زید آیا۔گویا مخاطب کی اہلیت کے مطابق بات کرنا کہ جسے وہ بآسانی سمجھ لے بلاغت ہے۔
قرآنِ مجید کے بارے میں ہمارا دعویٰ ہے کہ یہ سب سے زیادہ بلیغ کلام ہے جو اپنے مخاطبین کیلئے سمجھنے کے اعتبار سے نہایت سہل ہے اور وہ شخص جو اس بات کا داعی ہے کہ قرآن کو اس کے اوّلین مخاطب سمجھنے سے قاصر رہے یا ان کو سمجھنے میں غلطی لگ سکتی ہے اور وہ تا دم آخر اس غلطی پر قائم رہے وہ درحقیقت قرآن کی بلاغت کا منکر ہے،جبکہ قرآنِ مجید کو بلیغ سمجھنے والا ہر شخص اس کے اولین مخاطبین کے بارے میں یقین رکھے گا کہ وہ صحیح طور پر قرآن مجید کو سمجھ گئے تھے۔اور اگر کبھی کسی کو دیگر وجوہات کی بناء پر غلطی لگی تو اس کے مقابل درست بات کو سمجھنے والے کثیر تعداد میں موجود تھے۔
[1] منشور الحکم:ص67
[2] ايضاً:ص68
[3] جمهرة البلاغة:ص21