کتاب: حمید الدین فراہی رحمہ اللہ اور جمہور کےاصول تفسیر تحقیقی و تقابلی مطالعہ - صفحہ 231
الوصول إلى النهاية یعنی کسی شے کی غایت کو پالینے يا اس کی انتہا تک پہنچنے کے ہیں۔اس کو سامنے رکھتے ہوئے بلاغت کی اصطلاحی تعریف ان الفاظ میں کی جاسکتی ہے: "إیصال معنی الخطاب کاملًا إلی المتلقّي،سواء أکان سامعًا أم قارئًا." کہ کسی خطاب و گفتگو کے معنی کو مخاطب تک کامل طریقے سے پہنچانا،خواہ و ہ سامع ہو یا قاری،بلاغت کہلاتاہے۔ ابن الاثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: "مدار البلاغة كلّها استدراج الخصم إلى الإذعان والتسلیم،لأنه لا انتفاع بإیراد الأفکار المليحة الرائقة ولا المعاني اللطيفة الرقيقة دون أن تکون مستجلبة لبلوغ غرض المخاطب. "[1] کہ بلاغت کا مدار اس پر ہے کہ مخالف کو اذعان و تسلیم پر آمادہ کیا جائے کیونکہ دلکش اور خوبصورت افکار یا دقیق و لطیف مطالب کو استعمال کرنےکا کوئی فائدہ نہیں،اگر وہ مخاطب کی غرض کے حصول میں کارگر نہ ہوں۔ معجم الوسیط میں ہے: "حسن البیان وقوة التاثیر[2]،(وعند علماء البلاغة)مطابقة الکلام لمقتضی الحال مع فصاحته." [3] كہ بلیغ کلام ایسا کلام ہے جو حسن بیان کےساتھ تاثیر کی قوت بھی رکھتاہو۔علمائے بلاغت کے ہاں بلیغ کلام وہ ہےجو فصیح ہونے کے ساتھ ساتھ مقتضائے حال کے موافق بھی ہو۔‘‘ علمائے بلاغت لکھتے ہیں: "البلاغة في الکلام:مطابقته لمقتضی الحال مع فصاحته،ومقتضى الحال مختلف،فإنّ مقامات الکلام متفاوتة،فمقام التّنكير يُباين مقام التّعريف،ومقام الإطلاق يُباين مقام التّقييد،ومقام التّقدیم يباين مقام التأخير،ومقام الذّکر يُباین مقام الحذف،ومقام القصر يباين مقام خلافه،ومقام الفصل يُباين مقام الوصل،ومقام الإيجاز يُباين مقام الإطناب والمساواة،وكذا خطاب الذّكي يُباين خطاب الغبي. وكذا لكل كلمة مع صاحبتها مقام ... وارتفاع شأن الكلام في الحسن والقبول بمطابقته للاعتبار المناسب وانحطاطه بعدم مطابقته له." [4] کہ فصاحت کے ساتھ ساتھ مقتضائے حال کے موافق ہونا بلاغتِ کلام ہے،یہ مقتضائے حال مختلف ہوتا ہے،کیونکہ مواضع کلام مختلف ہیں،مثلاً مقام تنکیر مقام تعریف سے،مقام اطلاق مقام تقیید سے،مقامِ تقدیم مقام تاخیر سے،مقامِ ذکر مقامِ حذف سے،
[1] المثل السائر:2 ؍ 64 [2] معجم الوسيط:1 ؍ 70 [3] التّعريفات:ص66 ؛ التّوقيف على مهمات التعاريف:ص143 [4] تلخيص المفتاح:ص26 ؛ مختصر المعاني:ص16 ؛ الإيضاح في علوم البلاغة:ص13