کتاب: حمید الدین فراہی رحمہ اللہ اور جمہور کےاصول تفسیر تحقیقی و تقابلی مطالعہ - صفحہ 19
زمانہ طالب علمی میں مولانا فراہی رحمہ اللہ کالج کی انجمن لجنۃ الادب اور اخوان الصفا کے رکن رہے،جنوری 1894ء میں علامہ شبلی رحمہ اللہ کو شمس العلماء کا خطاب ملا تو مولانا فراہی رحمہ اللہ نے ان انجمنوں کی طرف سے منعقد کیے گئے جلسے میں عربی کا قصیدۂ تہنیت پڑھا۔یہ قصیدہ عربی میں مولانا کی پہلی تحریر کہی جا سکتی ہے۔اس وقت مولانا کی عمر تیس سال کی لگ بھگ ہو چکی تھی۔[1] مولانا فراہی رحمہ اللہ نے تدبر فی القرآن کا آغاز علی گڑھ کالج میں دورانِ طالب علمی ہی کر دیا تھا۔اس بارے میں مولانا اصلاحی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’مولانا نے قرآن مجید پر غور کرنے کاکام باضابطہ طورپر،جیساکہ انہوں نے اپنے مقدمہ نظام القرآن میں خود ظاہر فرمایا ہے،اس زمانے سےشروع کیا تھا جب وہ علی گڑھ میں بحیثیت ایک طالب علم کے مقیم تھے۔‘‘[2] یہ وہ زمانہ تھا جب سر سید مغربی نظریات سے مرعوبیت کے سبب قرآن مجید کی من مانی تاویلات کر رہے تھے اور مسلمانوں کا وہ طبقہ جو انگریزوں اور انگریزوں کے لائے ہوئے افکار ونظریات سے مرعوب تھا،بری طرح ان تاویلات کا شکار ہو رہا تھا۔مولانا نے اس فتنہ کو جہاں انگریزوں کے تسلط کا ایک قدرتی نتیجہ خیال کیا،وہاں اس حقیقت پر بھی ان کی نظر گئی کہ مذہبی علوم خصوصاً قرآن کے سمجھنے سمجھانے کا جو طریقہ مسلمانوں میں رائج اور مقبول رہا ہے وہ بالکل ہی غلط اور فرسودہ ہے۔اس کا علاج مولانا کے دل میں یہ آیا کہ قرآن مجید پر غور کرنے کا وہ طریقہ اختیار کیا جائے جس سے حکمتِ قرآن کے دروازے کھلیں تاکہ مسلمان مغرب کی فاسد عقلیت سے مرعوب ہونے کی بجائے قرآن کی عقلیت سے اس کا مقابلہ کر سکیں۔چنانچہ مولانا نے تفسیر کے واسطہ سے قرآن کے سمجھنے کا مقبول عام طریقہ چھوڑ کر قرآن پر براہ راست غور کرنے کا طریقہ اختیار کیا اور آہستہ آہستہ اسی غور وفکر کے نتیجے میں مولانا ان اُصولوں تک پہنچ گئے جو انہوں نے اپنے مقدمہ نظام القرآن میں بیان فرمائے ہیں۔ ایم اے عربی کا ارادہ 1895ء کے اوائل میں مولانا فراہی رحمہ اللہ بی اے سے فارغ ہوچکے تھے،وہ چاہتے تھے کہ اسی سال پہلی فرصت میں ایم اے عربی کا امتحان دے ڈالیں۔عربی کے وہ اسکالر تھے،انہیں کسی خاص تیاری کی ضرورت نہ تھی،اس لئے وہ بلا تاخیر امتحان میں بیٹھنا چاہتے تھے۔مشورہ اور معلومات کیلئے انہوں نے علامہ شبلی رحمہ اللہ سے رجوع کیا[3]،جس کے جواب میں علامہ نے لکھا: ’’برادرم!یہاں تمام حالات تحقیق کئے،تم بطور طالب العلم ایم اے میں نہیں جا سکتے،اس کے لئے چھ مہینہ کی مدت ضرور ہے،اور امتحان اکتوبر میں ہوگا،البتہ تم پرائیویٹ جا سکتے ہو،کیونکہ اس میں مدت کی کوئی قید نہیں،صرف اتنا ضرور ہے کہ امتحان سے دو تین مہینے پہلے پرنسپل صاحب کے دستخط سے تمہارا نام یونیورسٹی میں جانا چاہئے۔ کتابیں حسب ذیل ہیں:سبعہ معلقہ تمام،متنبّی تمام،حماسہ تمام،مقدمہ ابن خلدون 50 صفحہ اول،مقامات حریری نصف۔ کلکتہ کا کیلنڈر کئی برس سے یہاں نہیں آتا،مقامات حریری کا نصف بدلتا رہتا ہے،یعنی کبھی نصف اول اور کبھی نصف اخیر،اس لئے بہتر ہوگا کہ تم رجسٹرار یونیورسٹی کلکتہ کو لکھو کہ وہ یونیورسٹی کا پراسپکٹس سنہ حال ویلوپیبل بھیج دے،تھوڑی قیمت کو آتا ہے،تم
[1] ماہنامہ معارف:فروری1991،ص92 [2] دیباچہ مجموعہ تفاسیر فراہی:ص15 [3] ذکرِ فراہی:ص170