کتاب: حمید الدین فراہی رحمہ اللہ اور جمہور کےاصول تفسیر تحقیقی و تقابلی مطالعہ - صفحہ 17
حاصل کیا۔اس زمانہ میں علی گڑھ میں فلسفہ کے پروفیسر مشہور انگریز مستشرق ڈاکٹر آرنلڈ(1930ء)تھے۔پروفیسر آرنلڈ کو برصغیر میں اپنے ذاتی اوصاف وخصائص کے علاوہ اسلئے بھی شہرت ملی کہ وہ مولانا شبلی رحمہ اللہ کے ممدوح اور علامہ اقبال رحمہ اللہ(1938ء)کے محبوب استاد تھے۔مولانا شبلی اور علامہ اقبال دونوں ان کے علم واخلاق سے بہت متاثر تھے۔ان کے انتقال پر سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ نے تعزیتی شذرہ لکھا۔مولانا فراہی رحمہ اللہ نے علی گڑھ میں ان سے پڑھا[1] مگر عجیب بات یہ کہ ان کی زبان اور قلم سے بھول کر ایک دفعہ بھی ان کا نام نہیں نکلا،ان کے متعلق مولانا کے ذہنی رویے کا اندازہ اس سے بخوبی ہوسکتا ہے۔مزید وضاحت مولانا اصلاحی رحمہ اللہ کے اس بیان سے ہوتی ہے:
’’مولانا نے فلسفہ کے درس تو ان(ڈاکٹر آرنلڈ)سے ضرور لیے لیکن ان سے خوش نہیں تھے۔وہ آرنلڈ صاحب کو بھی اسی بساط سیاست کا ایک مہرہ سمجھتے تھے جو انگریزوں نے علی گڑھ میں بچھا رکھی تھی۔علی گڑھ کا کا حلقہ ڈاکٹر آرنلڈ صاحب کی کتاب(Preaching of Islam)کا مداح تھا،لیکن مولانا اس کتاب کے سخت مخالف تھے۔وہ فرماتے تھے کہ یہ کتاب مسلمانوں کے اندر سے روحِ جہاد ختم کرنے کیلئے لکھی گئی ہے۔‘‘ [2]
ڈاکٹر شرف الدین اصلاحی کی نظر میں یہ بات محل نظر ہے کہ مولانا فراہی رحمہ اللہ نے علی گڑھ کے پروفیسر ٹی ڈبلیو آرنلڈ سے بھی کسبِ فیض کیا تھا۔وہ اس بات کو تسلیم کرنے سے انکاری ہیں[3] لیکن یہ تسلیم کرتے ہیں کہ مولانا نے تعلیم کیلئے علی گڑھ کالج میں داخلہ لیا تھا اور سر سید(1898ء)اس وقت اس کے ناظم اعلیٰ تھے اور شبلی رحمہ اللہ بحیثیت استاد کام کر رہے تھے۔مولانا فراہی رحمہ اللہ کو عربی،فارسی کے مضامین سے مستثنیٰ رکھا گیا۔علی گڑھ کے ریکارڈ سے معلوم ہوتا ہے کہ مولانا کو میرٹ اسکالر شپ ملتا تھا۔داخلے کے دو سال بعد 1893ء میں الٰہ آباد یونیورسٹی سے سیکنڈ ڈویژن میں انٹرمیڈیٹ کا امتحان پاس کیا۔اس سال فرسٹ ڈویژن میں کوئی طالب علم پاس نہیں ہوا۔دو سال بعد 1895ء میں مولانا نے الٰہ آباد یونیورسٹی سے بی اے کا امتحان بھی سیکنڈ ڈویژن میں پاس کیا۔[4]
ہم نصابی سرگرمیاں
علی گڑھ کی فضا میں مواقع بھی تھے اور محرکات بھی۔مولانا فراہی رحمہ اللہ کی صلاحیتوں کو قوت سے فعل میں لانے کے لئے گویا سازگار ماحول میسر آگیا۔کالج کے باقاعدہ طالب علم رہتے ہوئے انہوں نے متعدد ایسے علمی کارنامے انجام دئیے جو آج کل کے دور میں ایم فل،پی ایچ ڈی کی ڈگری کیلئے کافی سمجھے جاتے ہیں۔علی گڑھ کالج کی مملکت میں سال اول کے ایک طالب علم کا سر سید تک رسائی حاصل کرنا بجائے خود ایک غیر معمولی واقعہ ہے۔مولانا فراہی رحمہ اللہ کے لئے سر سید کے سفارشی خط کا ذکر اوپر گزر چکا ہے۔کالج میں مولانا کو متعارف کرانے کیلئے مولانا شبلی رحمہ اللہ موجود تھے۔شروع میں یہ ذریعہ کام آیا۔رفتہ رفتہ خود معروف ہوگئے تو واسطہ کی ضرورت نہ رہی۔
کالج میں مولانا کی غیر نصابی سرگرمیوں کا دائرہ علمی کا موں تک محدود رہا۔اسی دوران سر سید نے طبقات ابن سعد سے سیرت
[1] مفردات القرآن (ترجمۃ المؤلف):ص18
[2] دیباچہ مجموعہ تفاسیر فراہی:ص12
[3] ذکرِ فراہی:ص194
[4] ماہنامہ ’معارف‘:فروری91، ص91