کتاب: حمید الدین فراہی رحمہ اللہ اور جمہور کےاصول تفسیر تحقیقی و تقابلی مطالعہ - صفحہ 16
علی گڑھ جانے سے پہلے انگریزی تعلیم کے ابتدائی مراحل کے بارے میں معلومات بہت تشنہ ہیں۔محمد سجاد صاحب مرحوم کے بیان کے مطابق مولانا فراہی رحمہ اللہ نے پہلے مڈل پاس کیا اور پھر کرنل گنج سکول الٰہ آباد سے پرائیوٹ طور میٹرک کا امتحان دیا،تاکہ وقت کم صرف ہو۔وقت ہی کے خیال سے کچھ پڑھائی اسکول سے باہر بھی کرنی پڑی۔[1] انٹرنس اور علی گڑھ کالج میں داخلے کے بارے میں سید سلیمان ندوری رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’اس زمانہ میں انگریزی پڑھنا کفر سمجھا جاتا تھا مگر یہ کفر مولانا نے توڑا،نج کے طور پر انگریزی کچھ پڑھ لینے کے بعد کرنل گنج اسکول الٰہ آباد میں داخل ہوگئے۔انٹرنس کا امتحان پرائیویٹ طور پر دے کر ایم اے او کالج علی گڑھ میں داخل ہوئے۔یہ علی گڑھ کالج کے اوج شباب کا زمانہ تھا۔سر سید اس کے ناظم اعلیٰ،مسٹر آرنلڈ اور بک وغیرہ اس کے پرنسپل اور پروفیسر،مولانا شبلی اس کے مدرس اور مولانا حالی وہاں کے مقیم وساکن تھے۔ہر وقت علمی مسائل وتحقیقات کی چہچہے رہتے تھے اور ان بزرگوں کی صحبتیں حاصل تھیں جن میں ہر ہونہار طالب علم کے فطری جو ہر کے چمکنے کا موقع حاصل تھا۔‘‘[2] علی گڑھ کالج میں داخلے کے وقت مولانا فراہی رحمہ اللہ فارسی اور عربی میں جو قابلیت پیدا کر چکے تھے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ خود سرسید نے مولانا کیلئے انگریز پرنسپل کو سفارشی خط لکھا جس میں یہاں تک لکھ دیا کہ میں آپ کے پاس ایک ایسا طالب علم بھیج رہا ہوں جو عربی اور فارسی میں اتنا قابل ہے کہ آپ کے کالج کے طلبا میں کجا پروفیسروں میں بھی کوئی اس کے ٹکر کا نہیں ہے۔اس زمانہ میں کالج کے پروفیسروں میں مولانا شبلی رحمہ اللہ جیسے عربی وفارسی کے یگانہ روزگار ماہرین شامل تھے۔انگریز پرنسپل کو سید صاحب کی یہ بات شاق گزری۔وہ خط لیے ہوئے مولانا شبلی رحمہ اللہ کے پاس پہنچا اور ان کو خط دکھا کر کہا کہ یہ سید صاحب نے ایک طالب علم کے متعلق کیا بات لکھ دی ہے،کیا یہاں کے عربی اور فارسی کے پروفیسر ایک طالب علم کے برابر بھی عربی اور فارسی کی استعداد نہیں رکھتے؟ کیا یہ آپ جیسے اہل علم کی صریح توہین نہیں ہے؟ پرنسپل صاحب اس طرح مولانا شبلی رحمہ اللہ کو بر انگیختہ کرنا چاہتے تھے لیکن مولانا اس پر برا فروختہ ہونے اور جھنجھلانے کی بجائے نہایت پر لطف انداز میں بولے کہ بلا شبہ آپ لوگوں کیلئے تو یہ بات توہین کا حکم رکھتی ہے لیکن میرے لیے یہ بات وجہ فخر ہے،کیوں کہ سید صاحب کے یہ ممدوح فارسی اور عربی دونوں زبانوں میں میرے شاگرد ہیں۔[3] مولانافراہی رحمہ اللہ عربی،فارسی اوردینیات میں اس قدر مہارت پیدا کرچکے تھے کہ کالج میں انہیں ان اسباق سے مستثنی ٰ کر دیا گیا۔ سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’اس زمانہ میں کالج ہر طالب علم کو عربی،فارسی بھی لازماً پڑھنا پڑھتی تھی،مگر سر سید نے ان کے متعلق مسٹر بک(1899ء)کولکھ کر بھیجا کہ حمید الدین عربی،فارسی کے ایسے فاضل ہیں جیسے آپ کے کالج کے استاد اور پروفیسر ہیں،اس لیے ان کو مشرقی علوم کے گھنٹوں سے مستثنیٰ کر دیا جائے،چنانچہ وہ مستثنیٰ کیے گئے۔‘‘[4] علی گڑھ میں مولانا نے انگریزی اور دوسرے علوم کے ساتھ ساتھ خاص توجہ کے ساتھ فلسفہ جدیدہ کی تحصیل کی اور اس میں امتیاز
[1] ماہنامہ ’معارف‘:فروری1991، ص91 [2] یادِ رفتگاں:ص116 [3] دیباچہ مجموعہ تفاسیر فراہی:ص11 [4] یادِ رفتگاں:ص116