کتاب: حمید الدین فراہی رحمہ اللہ اور جمہور کےاصول تفسیر تحقیقی و تقابلی مطالعہ - صفحہ 15
ہوئے۔مولانا فیض الحسن اس وقت اورینٹل کالج لاہور میں پروفیسرتھے اورعربی ادب میں پورے ملک کے اندر اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔ادب میں مولانا شبلی بھی انہی کے شاگرد تھے۔مولانا نے ان کی شاگردی سے پورا فائدہ اٹھایا اورمولانا فیض الحسن مرحوم نے بھی بڑی شفقت کے ساتھ مولانا کو علوم ادب کی تکمیل کرائی۔[1] مولانافراہی رحمہ اللہ نے لاہور میں رہ کر مولانافیض الحسن رحمہ اللہ سے عربی ادب کی تکمیل کی،لیکن مولانا فیض الحسن سے استفادہ کی مدت زیادہ نہیں۔اس کے باوجود استاد شاگرد دونوں اپنی اپنی جگہ ایک دوسرے سے غیر معمولی طورپر متاثر نظر آتے ہیں۔مولانا فیض الحسن رحمہ اللہ جیسے استاد کمیاب تھے تو فراہی بھی کوئی عام شاگرد نہ تھے۔علاوہ ازیں استادی شاگردی کا یہ تعلق بھی کوئی عام نوعیت کا نہ تھا۔ مولانا امین احسن اصلاحی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’استاذ کی نظر میں بھی شاگرد کی بڑی وقعت وعزت تھی۔مولانا فیض الحسن صاحب نے اپنی شرح سبعہ معلقہ کا مسودہ جو خود ان کے قلم کا لکھا ہوا تھا،مولانا کو یاد گار کے طور پر دیا تھا اور اس پر خود اپنے قلم سے شاگرد کےلئے جو تعريفی الفاظ لکھے ہیں وہ میر ی نظر سے گزرے ہیں۔وہ الفاظ اس قدر شاندار اور وقیع ہیں کہ ایک شاگرد بجا طور پر ان پر فخر کرسکتا ہے۔مولانا مرحوم استاذ کی اس یادگار کو نہایت عزیز رکھتے تھے۔ایک مرتبہ اس نسخہ کی طرف اشارہ کرکے فخریہ اندا ز میں فرمایا کہ یہ میرے استادکے بائیں ہا تھ کا کھیل ہے۔مولانا کے اس فقرے میں نہایت لطیف تلمیح تھی جس سے سننے والوں میں سے وہ لوگ نہایت محظو ظ ہوئے جواس بات سے واقف تھے کہ مولانا فیض الحسن مرحوم بائیں ہاتھ سے لکھتے تھے۔‘‘[2] شادی 17 رجب 1290ھ بمطابق 4 جون 1882ءکو 19 برس کی عمر میں مولانا کی شادی ہوئی۔یہ شادی بندول میں علامہ شبلی رحمہ اللہ کی سگی بہن مریم بی بی کی بیٹی سائرہ بی بی سے ہوئی۔[3] انگریزی تعلیم مولانا فراہی رحمہ اللہ نے عربی تعلیم 82۔1883ء تک مکمل کر لی تھی،اس کے بعد وہ بیماریوں کا شکار رہے اور کچھ عرصہ کے بعد انگریزی زبان اور مروجہ مضامین کی پڑھائی شروع کی۔مولانا خود فرماتے ہیں: "ثم کابدت الأمراض ولم أشتغل بتحصيل علم مدة سنة ثم شرعت في تعلّم اللغة الإنجليزية وفنونها المتداولة ...." [4] کہ اس کے بعد میں بیماریوں کا شکار رہا اور سال بھر کسی پڑھائی میں نہ لگ سکا۔پھر انگریزی زبان اور اس کے مروجہ مضامین کی پڑھائی شروع کی۔
[1] مجوعہ تفاسیر فراہی:ص10 [2] دیباچہ مجموعہ تفاسیر فراہی:ص11 [3] ماہنامہ ’معارف‘ اعظم گڑھ:فروری 1991، ص91 [4] ماہنامہ ’الضّياء ‘:ص260