کتاب: حمید الدین فراہی رحمہ اللہ اور جمہور کےاصول تفسیر تحقیقی و تقابلی مطالعہ - صفحہ 13
اورشاگرد کے لئے یہ لازم ہوتا کہ وہ کتاب کا اتنا حصہ بالکل حل کر کے لائے اور استاد کو سنا دے۔اگر شاگرد سے عبارت پڑھنے یا اس کا ترجمہ کرنے میں کوئی غلطی ہوتی تو وہ ’ہوں‘ کہہ کر ٹوک دیتے۔مطالعہ اور درس کے لئے جو نسخۂ کتاب کا انتخاب کیا گیا تھا وہ اعراب اورحاشیہ وغیرہ سے بالکل پاک تھا۔اس وجہ سے شاگرد کو محنت تو کافی کرنی پڑتی تھی۔لیکن میں ہر روز کا کام آسانی سے پورا کر لیتا اوراستاذ کو کبھی ناخو ش ہو نے کا موقع نہ دیتا۔اول تو ان کو ’ہوں‘ کہنے کی ضرورت بہت کم پیش آتی اور اگر پیش آتی بھی تو میں فوراً غلطی پر متنبہ ہوکر اس کو درست کر لیتا۔ایک روز درس ہو رہا تھا کہ ایک لفظ پر استاد نے ’ہوں‘ کہہ کر ٹوکا۔جس لفظ پر استاذ نے ٹوکا تھا اس میں تعلیل کا ایک اشکال تھا،اس وجہ سے مجھے گمان ہوا کہ استاذ کو کچھ غلط فہمی ہے۔میں نے پھر وہی پڑھا۔استاذ نے پھر ٹوکا لیکن میں نے پھر وہی پڑھا۔بالآخر استاذ کو غصہ آگیا اور انہوں نے مجھے کئی چپت رسید کر دئیے۔جب وہ مجھے سزا د ے کر فارغ ہوئے تو ان کو از خود اپنی غلطی پر تنبہ ہوا اور انہوں نے فورا مجھ سے معذرت کی کہ غلطی میر ی تھی اورمیں نے سزا تم کو دے دی۔اس واقعہ کے بعد سے میری قوتِ مطالعہ پر ان کو اس قدر اعتماد ہوگیا کہ وہ مشکل ہی سے مجھے کبھی ٹوکتے۔‘‘[1] لکھنؤ اور لاہور کا سفر تعلیم وتربیت میں مولانا شبلی رحمہ اللہ سے کسبِ فیض کرنے کے بعد مولانا فراہی رحمہ اللہ نے وقت کے مشہور اساتذہ کے حلقہ ہائے درس سے مستفید ہونے کا ارادہ کیا۔اس سلسلے میں وہ قدم بقدم مولانا شبلی رحمہ اللہ کے نقش قدم پر چلتے نظر آتے ہیں۔اس زمانہ میں مولانا ابو الحسنات عبد الحئ لکھنوی 1304ھ فرنگی محل کے حلقۂ درس کی بڑی شہرت تھی۔چنانچہ فقہ کی تحصیل کیلئے مولانا فراہی رحمہ اللہ نے کچھ مدت تک مولانا عبد الحئ لکھنوی رحمہ اللہ کے حلقۂ درس میں شرکت کی[2]،وہاں مولانا فضل اللہ انصاری رحمہ اللہ،جو معقولات کے ماہر تھے،سے بھی استفادہ کیا[3]،لیکن مولانا کی طبیعت ابتداء ہی سے تحقیق پسند واقع ہوئی تھی اور ان کے اس ذوق کو مولانا شبلی رحمہ اللہ کے فیض صحبت نے مزید اُبھار دیا تھا،لہٰذا وہ زیادہ عرصہ لکھنؤ میں نہ رُکے۔سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’مولانا شبلی جب یہاں سے باہر نکلے تو یہ بھی گئے۔لکھنؤ جا کر مولانا حمید الدین صاحب نے فرنگی محل میں مولانا عبد الحئ صاحب فرنگی محلّی سے کچھ پڑھا۔اس زمانہ میں لکھنؤ میں خواجہ عزیز الدین صاحب عزیز لکھنوی(پروفیسر فارسی کیٹنگ کالج لکھنؤ ومصنف قیصر نامہ)لکھنؤ میں فارسی کے نہایت مستند استاد وشاعر تھے۔ان کی صحبتوں میں شرکت کا اتفاق ہوتا رہا۔‘‘[4] مولانا فراہی رحمہ اللہ کے تعلیمی اسفار میں ان کے بیٹے محمد سجاد صاحب نے اعظم گڑھ اور لکھنؤ کے درمیان غازی پور کا ذکر کیا ہے۔[5] اس لحاظ سے مولانا کے تعلیمی سفر کی دوسری منزل غازی پور ہوئی۔لیکن غازی پور کا ذکر محمد سجاد صاحب کے علاوہ کسی اور نے نہیں کیا۔ممکن ہے کہ کچھ ہی روز کیلئے گئے ہوں اور پھر تسکین کا سامان نہ پا کر واپس آگئے ہوں اور کسی نے اس کو قابل ذکر خیال نہ کیا ہو۔تاہم اتنا واضح ہے کہ مولانا فراہی رحمہ اللہ نے تقریباً ان تمام مراکز علم کا رُخ کیا جو شبلی رحمہ اللہ کا مرجع رہ چکے تھے۔لکھنؤ،رام پور اور لاہور کے متعلق تو قطعیت کے
[1] دیباچہ مجموعہ تفاسیر فراہی:ص10 [2] حوالہ بالا [3] نزهة الخواطرازعبد الحي الحسني:4 ؍ 248 [4] یادِ رفتگاں:ص115 [5] ذکرِ فراہی:ص130