کتاب: حمید الدین فراہی رحمہ اللہ اور جمہور کےاصول تفسیر تحقیقی و تقابلی مطالعہ - صفحہ 12
عربی کی تحصیل
مولانا فراہی رحمہ اللہ کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہوئی لیکن تعلیم کا اگلا قدم گھر سے باہر نکل کر ہی اٹھایا جاسکتا تھا۔مولانا کی عمر ابھی چودہ برس کی تھی کہ طلب علم میں وہ پھریہا سے اعظم گڑھ آئے اور مولانا شبلی رحمہ اللہ سے پڑھنا شروع کیا۔یہ 1877ء کا سال تھا۔[1]
مولاناشبلی رحمہ اللہ کا وطن اعظم گڑھ کا ایک دیہات بندول تھا لیکن انکے والد اعظم گڑھ کے ایک نامور وکیل تھے اور اعظم گڑھ شہر میں خاندان کی جائیدادیں وغیرہ بھی تھیں۔انہوں نے اعظم گڑھ میں ایک مدرسہ بھی قائم کیا تھا۔مولانا فراہی رحمہ اللہ اعظم گڑھ آئے تو یہ مدرسہ اپنی بہار دکھا کر ویران ہو چکا تھا،البتہ شبلی کی آغوش تربیت ان کیلئے وا تھی۔مولانا فراہی رحمہ اللہ کی تعلیم وتربیت میں شبلی رحمہ اللہ کا خاصا حصہ ہے۔
اس حوالے سے مولانا فراہی رحمہ اللہ خود لکھتے ہیں:
"وشرعت في تعلّم اللغة العربية وأنا ابن أربع عشرة سنة وقرأت أكثر كتب الدّرس النظامي على ابن عمّتنا العلّامة شبلي" [2]
میں نے چودہ برس کی عمر میں عربی زبان پڑھنا شروع کی اور درس نظامی کی اکثر کتابیں پھوپھی زاد بھائی علامہ شبلی سے پڑھیں۔
سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’فارسی کے بعد مولانا نے عربی کی تعلیم شروع کی اوربھائی(مولانا شبلی رحمہ اللہ)سے عربی پڑھنے لگے،چنانچہ متوسطات تک مولانا شبلی ہی سے تعلیم پائی۔‘‘[3]
مولانا امین احسن اصلاحی رحمہ اللہ لکھتےہیں:
’’عربی زبان کی تحصیل زیادہ تر مولانا شبلی نعمانی سے کی۔مولاناشبلی مولانا حمید الدین سے چھ سال بڑے تھے اوراپنی غیر معمولی ذہانت اور وقت کے مشاہیر سے کسب فیض کے سبب سے علومِ عربیہ میں اپنا ایک مقام پیدا کر چکے تھے۔مولانا حمید الدین سے رشتہ داری اور ان کے ذاتی اوصاف کے سبب سے مولانا شبلی کوان سے نہایت گہری محبت تھی۔اس وجہ سے ایک شفیق بھائی کی طرح انہوں نے پوری توجہ اور نہایت سرگرمی کے ساتھ ان کو تعلیم دی۔مولانا نے صرف و نحو،ادب اور معقولات وغیرہ کی تعلیم انہی سے حاصل کی۔اور اپنی غیر معمولی صلاحیتوں کی وجہ سے بہت جلد تمام زیر درس علوم میں دستگاہ حاصل کرلی۔‘‘[4]
استاد شاگرد کی حیثیت سے وقت کے دو بہترین دماغوں کا یہ اجتماع نجانے کیسے کیسے دلچسپ واقعات کو اپنے دامن میں سمیٹے طاق نسیاں کی زینت بن گیا۔مولانا شبلی کے طریقۂ درس اور مولانا حمید الدین کی استعداد اور ذہانت کا اندازہ اس ایک واقعے سے ہوتا ہے جس کا ذکر مولانا فراہی رحمہ اللہ نے کیا:
’’ادب کی مشہور کتاب ’حریری‘ زیر درس تھی۔مولاناشبلی ہر روز مطالعہ کے لئے کتاب کی ایک خاص مقدار متعین کر دیتے
[1] مفردات القرآن (ترجمۃ المؤلف):ص17
[2] ماہنامہ ’الضّیاء‘:نومبر1933ء ، ص260
[3] یادِ رفتگاں:ص115
[4] دیباچہ مجموعہ تفاسیر فراہی:ص10