کتاب: حمید الدین فراہی رحمہ اللہ اور جمہور کےاصول تفسیر تحقیقی و تقابلی مطالعہ - صفحہ 11
مولانا فراہی رحمہ اللہ خود فرماتے ہیں: "وتعلمت اللّغة الفارسيّة في مدة تسعة أشهر ولکن لم أشتغل بها إلا بعد عامین لتتابع الأسقام. " [1] کہ میں نے نومہینے میں فارسی زبان سیکھ لی تھی لیکن پے در پے بیماریوں کے وجہ سے دو سال کے بعد ہی اسکی مشغولیت اختیار کی۔ سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ کا بیان ہے: ’’مولانا نے پہلے حفظ شروع کیا اورقرآن مجید کے حافظ ہوئے اورفارسی کی ابتدائی کتابیں اسی ضلع کے ایک دیہات چتارا کے باشندہ مولوی مہدی حسین صاحب سے پڑھیں،اس زمانہ میں شرفاء کی تعلیم کا فارسی ادب سب سے اہم جزو تھا،مولانا کو ادبیات سےفطری لگاؤ تھا،چنانچہ فارسی زبان اورفارسی ادب کا ذوق بچپن سے ان میں نمایا ں تھا۔اس وقت مولانا شبلی مرحوم عربی کی اعلیٰ کتابیں اعظم گڑھ میں مولانا فاروق صاحب چریا کوٹی سے پڑھ رہے تھے۔مولانا فاروق صاحب اپنے عہد کے سب سے بڑے عالم ہونے کے ساتھ فارسی کے بھی بہت بڑے ادیب اور استاد تھے،مولانا حمید الدین صاحب کی آمدو رفت یہاں بھی رہا کرتی تھی اور یہ عالمانہ صحبتیں ان کو ملا کرتی تھیں۔‘‘[2] حفظِ قرآن کے بعد فارسی زبان کی تحصیل کی۔فارسی زبان میں بہت جلد اس قدر ترقی کر لی کہ شعر کہنے لگے۔شاعری کا مذاق ان میں فطری تھا۔زبان سے تھوڑی ہی مدت میں اس قدر گہری مناسبت پیدا کر لی کہ اساتذہ کے رنگ میں قصیدے لکھنے لگے۔سولہ برس کی عمر میں فارسی کے سب سے مشکل گو شاعر خاقانی شیروانی کی تتبع میں ایک قصیدہ لکھا جو سلطان عبد الحمید خان کی مدح میں ہے۔جس کا مطلع یہ ہے۔؏ بے جلوۂ رخِ تو بود مضطر آئینہ خارا فگند بہ پیرہن از جوہر آئینہ 28 شعروں کا قصیدہ تھا۔مولانا شبلی نعمانی رحمہ اللہ نے اسے اپنے استاذ مولانا فاروق چریا کوٹی رحمہ اللہ 1329ھ کی خدمت میں پیش کیا اور مصنف کا نام بتائے بغیر ان سے پوچھا کہ یہ کس کا کلام ہو سکتا ہے؟ مولانا فاروق چریا کوٹی اپنے زمانہ کے مشہور عالم اور ممتاز نقاد سخن تھے،انہوں نے کلام پر غور سے نگاہ ڈالنے کےبعد کہا کہ میں یہ تو نہیں بتا سکتا کہ یہ کلام کس کا ہے لیکن انداز اور زبان سے پرانے اساتذہ میں سے کسی کا کلام معلوم ہوتا ہے۔[3] مولانا فراہی رحمہ اللہ کا شمار اپنے دور کے لائق ترین شاگردوں میں ہوا کرتا تھا۔ان کے اساتذہ اکرام ان پر فخر کیا کرتے تھے۔مولانا مہدی چتاوری رحمہ اللہ کہا کرتے تھے: ’’ میں نے بہت سے انڈے دیے مگر دو کےسوا سب گندے نکلے:ایک فضل کریم اوردوسرے حمید الدین۔‘‘[4]
[1] ماہنامہ ’الضّیاء‘:نومبر1933ء، ص260 [2] یادِ رفتگاں:ص113 [3] دیباچہ مجموعہ تفاسیر فراہی:ص9، یادِ رفتگاں:ص114، مفردات القرآن (ترجمۃ المؤلف):ص16 [4] ذکرِ فراہی:ص116