کتاب: حمید الدین فراہی رحمہ اللہ اور جمہور کےاصول تفسیر تحقیقی و تقابلی مطالعہ - صفحہ 10
تعلیم وتربیت مولانا فراہی رحمہ اللہ کے ہاں واضح طور پر رسمی تعلیم کے دو دَور ہیں اوران میں سے ہر دو ر اپنی جگہ نمایاں اورمکمل ہے۔تعلیم کے پہلے دور میں انہوں نے دینی تعلیم کے علاوہ عربی اورمشرقی علوم سیکھے جس کی تکمیل نجی تعلیمی درسگاہوں میں ہوئی۔دوسرے دور میں انہوں نے انگریزی اور مغربی علوم کی تحصیل کی جس کیلئے سرکاری تعلیم گاہوں میں داخلہ لیا۔ حفظ قرآن مولانا فراہی رحمہ اللہ کی ابتدائی تعلیم اس وقت کے شرفا کی طرح گھر پر ہوئی۔اس کا آغاز دستور کےمطابق ناظرہ اور حفظ قرآن سے ہوا،راجہ پور سکرور کے حافظ احمد علی مرحوم نے گھر پر رہ کر حفظ کرایا۔[1] مولانا نےخودبھی اپنے حالات زندگی تحریر کیے تو پیدائش کے بعد جس بات کا ذکر کیا وہ حفظ قرآن ہی ہے۔مولانا کی خود نوشت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ مرحلہ انہوں نے تقریباً دس سال کی عمر میں طے کرلیا تھا۔فرماتے ہیں: "وحفظتُ القرآن المجیدَ وأنا ابنُ عشرة سنین أو بقرب منها" [2] کہ جب میں نے قرآن مجید حفظ کیا اس وقت میر ی عمر قریب قریب دس برس تھی۔ ‎حفظ قرآن میں کتنا عرصہ صرف ہوا؟ مولانا کے سوانح نگار اس بارے میں خاموش ہیں لیکن اتنی بات ضرور ہے کہ ڈاکٹر شرف الدین کے بقول حفظ کے دوران مولانا سخت بیمار پڑگئے تھے اور سب کچھ بھول گئے تھے،پھر نئے سرے سے دوبارہ شروع کیا۔[3] اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کا تعلق چونکہ ایک متدین گھرانے سے تھا اور پانچ چھ برس کی عمر میں آپ نے حفظ قرآن شروع کر دیا ہوگا اور دورانِ حفظ آپ بیمار بھی پڑ گئے۔اگر بیماری کی مدّت کو نکال دیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ حفظ قرآن کی تکمیل میں تقریباً دو تین سال لگ گئے ہوں گے۔مولانا نے اپنی تاریخ ولادت اور حفظ قرآن کی تکمیل کا ذکر خود کیا ہے جس سے یہ نتیجہ بآسانی اخذ کیا جا سکتا ہے کہ تقریباً 1873ء کے لگ بھگ آپ کا حفظ مکمل ہو گیا ہوگا۔ فارسی زبان کی مہارت حفظ قرآ ن سے فارغ ہوکر عام دستور کے موافق پہلے فارسی کی تعلیم لی،اس زمانے کاعام طریقہ تعلیم یہ تھا کہ ایک وقت میں ایک مضمون ہی پڑھتے تھے۔ماحول کے فطری اثر اور اپنی خداداد ذہانت کی وجہ سے مولانا نے ناقابل یقین حدتک قلیل مدت میں فارسی زبان کی تحصیل مکمل کرلی۔
[1] یادِ رفتگاں:ص113، دیباچہ مجموعہ تفاسیر فراہی:ص9، ماہنامہ ’معارف‘ اعظم گڑھ:فروری91، ص89 [2] ماہنامہ ’الضّیاء‘لکھنؤ:نومبر1933ء ، ص260 [3] ذکرِ فراہی:ص112