کتاب: ہمارے اسلاف - صفحہ 80
مولانا مزید لکھتے ہیں:
’’اس وقت اہلِ حدیث علما کے سامنے اہم مسئلہ یہ تھا:
لوگ قرآن عزیز اور سنتِ مطہرہ کی پابندی کریں۔
اگر ان کے سمجھنے میں مشکل پیش آئے تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین رحمہم اللہ کی روش پر اسے سمجھا جائے،فہم میں جمود اور تقلید پیدا ہو نہ آزادی اور آوارگی راہ پائے،بلکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے زمانے اور اس کے فتوؤں میں وقت کے مصالح کی بنا پر وسعت قائم رہے۔علما کے فتوؤں کو قرآن اور سنت کا قائم مقام نہ سمجھا جائے۔
سنن دارمی کے ابتدائی ابواب پر غور فرمائیے:
’’باب اجتناب أھل الأھواء والبدع والخصومۃ،باب في اجتناب الأھوائ،باب فضل العلم والعلمائ،باب التوبیخ لمن یطلب العلم لغیر اللّٰہ ‘‘
ان تمام ابواب اور سلف اہلِ علم کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ وہ کتاب و سنت کے بعد ائمہ سلف کے طریق کی پابندی ضروری سمجھتے ہیں۔شخصی آرا و افکار اور تقلیدِ جامد سے اذہان کو ہر قیمت پر آزاد رکھنا چاہتے ہیں،لیکن اہلِ بدعت کی سی ذہن میں آوارگی کسی قیمت پر بھی پسند نہیں کرتے۔اس وقت کے اہلِ حدیث علما کے سامنے چند کام تھے،احادیثِ نبویہ کا حفظ اور ضبطِ احادیث میں تفقہ اور استنباط،بدعات اعتقادیہ اور عملیہ سے کلیتاً پرہیز۔
شاہ عبدالعزیز رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ ائمہ حدیث کا مذہب کیا ہے تو آپ نے فرمایا: